Maktaba Wahhabi

159 - 676
سابقہ آیت میں جس تفریق کا ذکر ہے وہ یہی معلوم ہوتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے اہلِ کفر و نفاق بھاگتے ہیں۔ اہلِ ایمان کی علامت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ وحی کی بعض اقسام کا اقرار اور بعض کا انکار نہیں کرتے۔ وہ وحی پر کلیتاً ایمان لاتے ہیں۔ ایمان باللہ اور ایمان بالرسول میں کوئی فرق نہیں کرتے۔ 14۔ ﴿وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىٰ ﴿١﴾ مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىٰ ﴿٢﴾ وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ﴿٤﴾ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَىٰ ﴿٥﴾﴾ (النجم: 1 تا 5) ’’ستاروں کی ڈوبتی ہوئی روشنی گواہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) نہ بھولے ہیں اور نہ ان سے اعتقادی لغزش رونما ہوئی ہے۔ وہ ذاتی خواہش سے نہیں بولتے۔ وہ تو صرف وحی سے فرماتے ہیں۔ جو طاقتور فرشتے کی معرفت ان پر نازل کی جاتی ہے۔‘‘ یہاں ضلالت و غوایت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عصمت کے تذکرے کے بعد ان کے تمام ارشادات کو وحی فرمایا ہے اور نفسانی خواہشات کی آمیزش سے پاک قرار دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم – فداہ امی و ابی – کا ہر ارشاد نفسانی خواہشات سے پاک اور وحی الٰہی سے مؤید ہے، وہ شرعاً حجت ہو گا اور قابلِ قبول۔ ﴿إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ﴾ میں جس طرح حصر فرمایا گیا ہے اس سے ظاہر ہے کہ رسول بوصف رسالت وحی کے بغیر بولتا ہی نہیں۔ اس لیے اس کی زبان سے قرآن کی تلاوت ہو یا سنت کا بیان، وہ اگر بحیثیت رسول ہے تو وہ بجز وحی کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ عادی اور دنیوی امور وصفِ رسالت کے تابع ہی نہیں، لہٰذا وہ وحی نہیں ہوں گے، انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ترک فرما سکتے ہیں۔ صحابہ کے مشوروں سے اسے نظر انداز فرما سکتے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آراء و افکار کو اس پر ترجیح دے سکتے ہیں۔ جنگِ بدر میں مقام جنگ کی تبدیلی، [1] بریرہ کو مغیث کے متعلق مشورہ دینا اور بریرہ کو اس سے انکار پر رعایت دینا، [2] اس کی دلیل ہے کہ یہ معاملہ بلحاظ نبوت نہ تھا۔ 15۔ ﴿أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ ﴿١﴾ وَوَضَعْنَا عَنكَ وِزْرَكَ ﴿٢﴾ الَّذِي أَنقَضَ
Flag Counter