Maktaba Wahhabi

404 - 676
لا من العلوم الشرعية ولا من العلوم العقلية إلا في القليل النادر‘‘ (مقدمه ابن خلدون: 499) ’’یہ عجیب واقعہ ہے کہ اسلام میں اکثر اہل علم عجمی الاصل ہیں۔ شرعی اور عقلی علوم کا بھی یہی حال ہے، عرب بہت کم ہیں۔‘‘ ابن خلدون اس کے وجوہ اور علل پر اپنے ذوق کے مطابق بحث فرماتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’فكان صاحب صناعة النحو سيبويه، والفارسي من بعده، والزجاج من بعدهما، كلهم عجم في أنسابهم، و إنما ربوا في اللسان العربي فاكتسبوا بالمربي و مخالطة العرب، وصيروه قوانين وفنا لمن بعدهم، وكذا حملة الحديث الذين حفظوه علي أهل الإسلام، أكثرهم عجم أو مستعجمون باللغة والمربيٰ، وكان علماء أصول الفقه كلهم عجما كما عرف، وكذا حملة علم الكلام، وكذا أكثر المفسرين، ولم يقم بحفظ العلم و تدوينه إلا الأعاجم‘‘ (مقدمه ابن خلدون: 500) ’’سیبویہ نحو کے ماہر تھے، ان کے بعد ابو علی فارسی، ان کے بعد زجاج، یہ سب عجمی تھے۔ عرب میں تربیت کی وجہ سے انہیں کسی طور پر یہ زبان حاصل ہو گئی اور عربوں میں رہنے سہنے کی وجہ سے انہیں زبان کو قانون اور فنی صورت دینے کی توفیق ملی، اسی طرح علماءِ حدیث میں اکثر عجمی ہیں۔ انہوں نے علماءِ اسلام سے اسے سیکھا، اور جیسا کہ معلوم ہے علماء اصولِ فقہ بھی سب عجمی ہیں، اسی طرح تمام علماء کلام اور ائمہ تفسیر بھی۔ علم کے حفظ و تدوین کی ذمہ داری عجمیوں نے لے لی۔‘‘ اگر کسی ملک میں علم کی خدمت اور اس کی تدوین سازش کی دلیل ہو سکتی ہے، تو یقین فرمائیے تمام اسلامی علوم سازش کا نتیجہ ہیں، نہ نحو محفوظ ہے، نہ فقہ، نہ علم کلام، نہ علم تفسیر۔ قرآن کے الفاظ کتنے ہی متواتر کیوں نہ ہوں، جب تعیینِ مراد میں عجمی سازش کو دخل ہو گیا، تو قرآن کا تواتر اور یقین بے مقصد ہو جائے گا۔ اب مولانا تمنا اور پرویز سوچ لیں کہ ان کے پاؤں سرزمین عجم میں ہیں یا عرب میں؟ وہ اپنی مفروضہ سازش سے تو نہیں بچ سکیں گے۔ ابن خلدون کا مقام اہل علم میں معلوم
Flag Counter