Maktaba Wahhabi

642 - 676
غرض امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے وقت کے تمام معیاروں کو سامنے رکھ کر صحیح احادیث کا انتخاب فرمایا۔ حدیثی، فقہی، عقلی، قرآنی، تمام معیاری چیزیں امام کے سامنے ہیں۔ ان معیاری شروط کو سامنے رکھ کر امام نے قریب چار ہزار احادیث بحذف مکررات انتخاب فرمائیں۔ باقی کو مسترد نہیں فرمایا، بلکہ ان کا تذکرہ باقی کتب میں فرمایا، جس میں یہ کڑی شرائط نہیں ہیں۔ چنانچہ اس دورِ واپسیں کے مجدد حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمہ اللہ جنہوں نے ہندو پاکستان کے جہلستان میں کتاب و سنت کو رواج دیا، قرآن کی تعلیمات سے لوگوں کو آشنا فرمایا، تقلید و جمود کے ظلمستان میں تحقیق کے چراغ جلائے اور بدعت کے اندھیروں کو پارہ پارہ کر کے رکھ دیا، صحیحین کے متعلق فرماتے ہیں: ’’أما الصحيحان فقد اتفق المحدثون علي أن جميع ما فيهما من المتصل المرفوع صحيح بالقطع، و أنهما متواتران إلي مصنفيهما، وأنه كل من يهون أمرهما فهو مبتدع متبع غير سبيل المؤمنين، وإن شئت الحق الصراح فقسهما بكتاب ابن أبي شيبة و كتاب الطحاوي و مسند الخوارزمي وغيرها، تجد بينها و بينهما بعد المشرقين‘‘ 1ھ (حجة اللّٰه البالغة: 1/106) ’’صحیح بخاری کے متعلق محدثین متفق ہیں، ان میں متصل اور مرفوع احادیث قطعاً صحیح ہیں اور ان کی اسناد ان کے مصنفین تک متواتر ہیں۔ جو ان میں نقطہ چینی کرے اور ان کے مقام کو حقیر سمجھے، وہ بدعتی ہے اور اہل ایمان کی راہ سے اس کی راہ جدا ہے۔ اگر آپ حق کی مزید وضاحت چاہیں، تو مصنف ابن ابی شیبہ، معانی الآثار طحاوی اور مسند خوارزمی سے ان کا مقابلہ کریں، آپ ان میں زمین و آسمان کا فرق پائیں گے۔‘‘ شاہ صاحب رحمہ اللہ کی اس جچی تلی رائے پر لاکھوں منکرین حدیث قربان کیے جا سکتے ہیں۔ یہ بیچارے علم اور بصیرت دونوں سے محروم ہیں۔ تُک بندی اور ہفوات کے ماہر ہیں۔ ان کے ہاں اسی کا نام علم و بصیرت ہے، اسی کا نام تجدید و اجتہاد ہے! اب شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی رائے پر غور فرمائیے:
Flag Counter