ارشاد کے مطابق امام بخاری کی توجہ اس طرح ہوئی۔ [1] انہوں نے فیصلہ فرمایا کہ چند شرائط کے مطابق ایک مستند ذخیرہ ضعاف اور مراسیل سے الگ کر دیا جائے، عمل کرنے والوں کو اسی میں سہولت ہو گی۔ امام بخاری نے یہ مجموعہ ’’الجامع الصحيح‘‘ سولہ سال میں مرتب فرمایا۔ [2] جہاں تک انسانی مساعی کا تعلق ہے، انسانی حدود کے اندر یہ کوشش بے حد کامیاب ہے۔ اسی محنت کی بدولت امام کو ’’جبل الحفظ‘‘ اور ’’إمام الدنيا‘‘ (حافظہ کا پہاڑ، دنیا کا امام) کا خطاب دیا گیا۔
ایام تصنیف سے صحیح بخاری علماءِ فن کی بحث و نظر کا تختہ مشق رہی۔ موافق مخالف دونوں نے صدیوں اس پر طبع آزمائی کی۔ کسی نے تنقید و استدراک کے چھاج میں پھٹکا، کسی نے حمایت کی اور ان جرجوں کا جواب دیا۔ ان تمام مراحل کے بعد اسے ’’أصح الكتب بعد كتاب اللّٰه ‘‘ کہا گیا۔ نقاد حضرات میں عقل پرست بھی تھے اور حفاظ بھی۔ محدث بھی تھے اور صوفی بھی۔ اس میں اکاذیب ابراہیم کی احادیث بھی تھیں اور موسیٰ علیہ السلام کے تھپڑ کا قصہ بھی تھا۔ بقول امام ابن قتیبہ دینوری بعض اہل علم نے انہی احادیث سے استدلال کیا اور بوقت ضرورت کذب و تعریض کی اجازت کا فتویٰ دیا۔ [3] اس وقت کے بدعت نواز سنت کی مخالفت کے باوجود اس طرح بدزبانی نہ کر سکے، جو ادارہ ’’طلوع اسلام‘‘ اور منکرینِ حدیث کا طرہ امتیاز ہو رہی ہے۔ علم و جہل میں یہی فرق ہے۔ (ملاحظہ ہو: مقام حدیث: 1/61)
حدیث پر اعتراضات مختلف ادوار میں ملاحظہ فرمائیے، آپ کو تعجب ہو گا کہ ایک عقل پرست اسے خلاف عقل کہتا ہے، دوسرا اسے اقتضائے وقت کے مطابق سمجھ کر استدلال کرتا ہے۔ ایک صاحب بعض احادیث کو قرآن کے خلاف سمجھتے ہیں، دوسرے ان کے ہم پایہ اور ہم پیشہ صحیح اور عقل کے بالکل مطابق سمجھتے رہے۔
ان علم و عقل کے یتامیٰ اور مساکین کا ہمیشہ سے یہی حال رہا۔ اپنی بے علمیوں اور بدعملیوں کو چھپانے کے لیے سنت پر اعتراضات کر ڈالتے ہیں، لیکن اتنا نہیں سوچتے کہ تمہارے علم و عقل کو معیار کی سند کس نے دی ہے؟
|