Maktaba Wahhabi

187 - 676
کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال حجت ہیں۔ محتاط سیرت کے بعد، جس کا اظہار قرآن عزیز میں فرمایا گیا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی حیثیت بہت نمایاں ہو جاتی ہے۔ (8) ﴿مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللّٰه ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰه وَرِضْوَانًا ۖ﴾ (الفتح: 29) ’’محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے پیامبر ہیں اور آپ کے ساتھی حق کے منکروں کے لیے بے حد سخت گیر ہیں۔ ان کے باہمی تعلقات رحم و کرم پر مبنی ہیں۔ وہ اللہ کے فضل اور رضا مندی کی تلاش کے لیے ہمیشہ رکوع اور سجود میں مشغول رہتے ہیں۔ ان کے اچھے فضائل کا ذکر تورات اور انجیل میں بھی پایا گیا ہے۔‘‘ ذاتی نام کے ساتھ وصفِ رسالت کے تذکرہ سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام بلحاظِ محمد وصفِ رسول سے مختلف ہے۔ رسالت کے تقاضوں کا یہ اثر ہے کہ حضرت کے ماننے والوں میں دو متضاد قوتیں اس طرح سمو دی گئی ہیں کہ کوئی چیز بھی بے محل اور بے وقت استعمال نہیں ہونے پاتی، بلکہ سختی اور شدت جب بھی استعمال ہوئی ہے منکرین حق اور سچائی کے دشمنوں کے خلاف استعمال ہوئی۔ اور رافت و رحمت کا ظہور جب بھی ہوا، اس نے حق پرست اور اصحابِ دیانت کو تلاش کر لیا۔ جس کالج میں طلبہ میں احتیاط کا یہ عالم ہے کہ کوئی جذبہ اور فطرت کا کوئی تقاضا بے محل استعمال نہیں ہونے پاتا، اس کالج کے پرنسپل اور معلم کے متعلق سوچیے کہ اس کا مقام کیا ہو گا؟ قرآن حکیم نے رقتِ قلب اور غضب و شدت کے دونوں حالات کا موازنہ فرمایا ہے۔ ان غیر معمولی حالات میں اگر اعتدال قائم ہے اور مزاج نے کوئی غلط فیصلہ نہیں کیا تو نارمل اور معتدل حالات کے متعلق تو بحث کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ پھر جس کی تعلیم نے غیر رسول اور غیر معصوم انسانوں میں یہ اعتدال پیدا کر دیا۔ وہ معلم جب بوصف رسالت ہو گا تو عصمت اس کی زینت ہو گی۔ غور فرمائیے کہ بے اعتدالی کے لیے یہاں گزر کی کوئی گنجائش ہو گی؟ ایسے مقدس انسان کے دینی ارشادات کی شرعی حیثیت پر بحث کرنا بھلا معلوم نہیں ہوتا۔ ہر مقام پر چوروں کی تلاش اور چوری کی فکر شرافت کا تقاضا نہیں۔ جس کے تقدس کی منادی چار دانگ عالم میں تورات و انجیل نے کر دی ہو، آج کون ہے جو اس کی طرف تنقیدی نگاہ سے دیکھے؟ بلحاظ رسول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter