کے مقام کی وضاحت اس آیت میں بصراحت موجود ہے، معترضین کو سوچنا چاہیے کہ ان کا موقف کیا ہے۔ ﴿وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنقَلَبٍ يَنقَلِبُونَ﴾ (الشعراء: 227)
(9) ﴿الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللّٰه أَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ ﴿١﴾ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَآمَنُوا بِمَا نُزِّلَ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَهُوَ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۙ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بَالَهُمْ﴾ (محمد: 1، 2)
’’حق و صداقت کے منکر اللہ تعالیٰ کی راہ سے روکتے ہیں، اس لیے ان کے اعمال برباد ہو گئے اور سچائی پر یقین کرنے والے جن کی عملی زندگی درست ہے۔ وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی وحی پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کی غلطیاں معاف ہوں گی اور ان کے حالات درست ہوں گے۔‘‘
سورت محمد کے آغاز سے ہی اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا ذکر فرمایا۔ جہاد، جنگی قیدیوں کا معاملہ، منافقین کی چالاکیاں اور جہاد کا گریز وغیرہ احوال کا ذکر فرما کر ارشاد ہوا:
﴿فَأَوْلَىٰ لَهُمْ ﴿٢٠﴾ طَاعَةٌ وَقَوْلٌ مَّعْرُوفٌ﴾ (محمد: 20، 21)
ان کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور دستور کی گفتگو کرنا صحیح راہِ عمل ہے، ورنہ یہ لوگ خدا کی لعنت میں گرفتار ہوں گے۔ سورۃ کا خاتمہ بھی اسی نصیحت پر فرمایا:
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللّٰه وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ﴾ (محمد: 33)
’’اے صداقت کے پرستارو! اللہ کی اطاعت اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال برباد نہ کرو۔‘‘
یعنی رسول کی اطاعت سے انحراف بھی عمل کو اسی طرح برباد کر دیتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اسے تباہ کر دیتی ہے۔ یہ رسول کے موقف کی کس قدر کھلی وضاحت ہوئی ہے؟
(10) ﴿وَكَأَيِّن مِّن قَرْيَةٍ عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّهَا وَرُسُلِهِ فَحَاسَبْنَاهَا حِسَابًا شَدِيدًا وَعَذَّبْنَاهَا عَذَابًا نُّكْرًا ﴿٨﴾ فَذَاقَتْ وَبَالَ أَمْرِهَا وَكَانَ عَاقِبَةُ أَمْرِهَا خُسْرًا
|