Maktaba Wahhabi

150 - 676
معلوم نہیں کہ اس کے بعد کفر و جحود کس چیز کا نام رکھا جائے گا؟ اور چونکہ پیغمبر کو یہ مقام اللہ تعالیٰ کے اذن سے ملا ہے، لہٰذا اس مقام کا انکار اللہ تعالیٰ کے ساتھ اعلانِ جنگ ہو گا۔ أعاذنا اللّٰه من ذٰلك 3۔ ﴿ فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾ (النساء: 65) ’’خدا کی قسم ان میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو حاکم نہ مانیں۔ پھر آپ کے فیصلوں کو دلی رضا مندی سے بے چون و چرا تسلیم نہ کریں۔‘‘ اس آیت میں چند امور قابلِ غور ہیں: (1) باہمی نزاع اور اختلاف کا ذکر اصول موضوعہ اور مسلمات کی طرح فرمایا گیا ہے اور یہ اختلافِ طبائع کا لازمی نتیجہ ہے۔ یعنی اختلاف ضرور ہو گا۔ (2) پھر اس کے رفع کی صورت صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم۔ (3) اس کے قبول میں دس کے وساوس اور خطرات کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ (4) معلوم ہوا کہ یہ نزاع اور فیصلہ دونوں قرآن عزیز کے علاوہ ہیں۔ اگر اس سے مراد دنیا کے باہمی جھگڑے بھی لیے جائیں اور رسول کے فیصلے کی حیثیت امیر اور حاکمِ وقت کے حکم کی ہو تو بھی اصل حجیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، بلکہ آیت کا عموم دونوں کو شامل ہو گا۔ مگر رسول کی حیثیت منقسم ہو گی۔ دنیوی حیثیت سے وہ حاکم اور امیر ہے اور اپنے روحانی منصب کے لحاظ سے وہ پیغمبر ہے۔ اگر دنیوی حیثیت سے اس کے فیصلہ کے انکار سے ایمان کی نفی ہو سکتی ہے تو اس کے روحانی منصب سے اختلاف یا اس کی حجیت کا انکار تو بطریقِ اولیٰ ایمان کی موت کے ہم معنی ہو گا۔ اس لیے یہ آیت حجیتِ حدیث میں نص ہے۔ فَأَيْنَ الْمَفَرُّ؟ 4۔ ﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللّٰه وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللّٰه وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا﴾ (الاحزاب: 36) ’’کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنی صوابدید اور پسند کو اس امر میں مداخلت کا موقع دیں اور اگر کسی نے اس کی خلاف ورزی کی تو اس کی گمراہی بالکل ظاہر ہے۔‘‘ (1) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کی قبولیت شرطِ ایمان قرار پائی ہے۔
Flag Counter