Maktaba Wahhabi

151 - 676
(2) فیصلہ کے بعد ذاتی پسند کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ (3) اور اگر کوئی اپنی پسند پر اصرار کرے اور صوابدید کے مطابق فیصلہ کی سعی کرے تو اس کے لیے ضلال مبین کی وعید موجود ہے۔ (4) اس قسم کے اختیار سے دستبرداری شرطِ ایمان قرار پائی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور اجتہاد کی حجیت اس آیت سے بالکل واضح ہے اور اہل حدیث کا اس سے زیادہ کوئی جرم نہیں کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو اس سے پست نہیں دیکھنا چاہتے۔ ہر صاحبِ امر کا حکم اپنے حلقہ اثر میں حجت تصور کیا جائے، لیکن رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس معقول اور واجبی حق سے محروم رکھا جائے۔ کیوں۔۔؟ در حیرتم تمام کہ ایں چہ بو العجبی است [1] 5۔ ﴿لَّا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا ۚ قَدْ يَعْلَمُ اللّٰه الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا ۚ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ (النور: 63) ’’رسول کی دعوت اور پکار کو تم اپنی باہمی پکار و دعوت کی طرح مت سمجھو (بلکہ رسول کی پکار واجب القبول ہے) اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو دوسروں کی آڑ میں حیلوں اور بہانوں سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت سے بچنا چاہتے ہیں۔ جو لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے امر کی مخالفت کرتے ہیں، انہیں ڈرنا چاہیے کہ کہیں کسی آزمائش یا دردناک عذاب میں مبتلا نہ ہو جائیں۔‘‘ اس آیت کی تصریحات پر غور فرمائیے: (1) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پکار کا حکم لوگوں کی معمولی اور معتاد گفتگو سے مختلف ہے۔ (باہمی گفتگو میں ایک دوسرے کی مخالفت کی جا سکتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے) یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں۔ (2) حیلوں بہانوں سے دوسروں کی آڑ میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،
Flag Counter