Maktaba Wahhabi

148 - 676
رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ﴾ (الشوریٰ: 51) انسانوں کے ساتھ گفتگو میں ہمارے (اللہ تعالیٰ کے) تین طریقے ہیں: دل میں الہامِ خیر، پسِ پردہ آواز یا فرشتہ بصورتِ پیغمبر آ جائے اور پیغام دے جائے۔ پہلے انبیاء کے متعلق ممکن ہے کہ ان تینوں طریقوں کے مجموعہ سے انہیں مخاطب نہ فرمایا گیا ہو، بلکہ کسی طریق سے ان پر وحی نازل ہوئی، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا: ﴿ وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا ۚ ﴾ (الشوریٰ: 52) ’’ہم نے تم پر اپنا امر اس طرح وحی کیا۔‘‘ یہ حدیث شریف کی وحی کے طریقے ہیں۔ قرآنِ عزیز کے طریقِ نزول کی وضاحت یوں بیان فرمائی: ﴿ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ ﴿١٩٣﴾ عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ ﴾ (الشعراء: 193، 194) ’’قرآن پاک بواسطہ روح الامین تمہارے دل تک پہنچایا گیا تاکہ تم ڈراؤ۔‘‘ اس لیے ضرورت محسوس ہوئی کہ خود قرآنِ عزیز سے معلوم کیا جائے کہ ارشادِ نبوی اور ان کی اہمیت قرآن کی نظر میں کیا ہے؟ مستقبل کی مشکلات، رواۃ کے حفظِ عدالت، شذوذ اور علل کے نقائص منزلِ قرآن کی نظر سے پوشیدہ نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم تھا کہ سلسلہ روایت سے شکوک و شبہات اور ظنون کا پیدا ہونا ضروری ہے۔ اس کے باوجود اگر قرآنِ عزیز، احادیث یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی اہمیت کو قبول فرمائے تو ہمیں اعتراض کا حق نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ قرآن علم کے اس شعبہ کو علی علاتہٖ قبول فرماتا ہے۔ ظنون اور شبہات کے باوجود اس کی ضرورت کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تعلیم قرآن کا ایک جز ہے اور وہ نقائص جن سے ہمارے شبہات میں اضافہ ہو رہا ہے اور جسے ہم شک، ظن یا وہم سے تعبیر کرتے ہیں، قرآن کی نظر میں یہ کوئی عیب نہیں ہے، لہٰذا اس کی بنا پر احادیث کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ اگر حدیث کی حیثیت عام تاریخ یا حوادثِ روزگار کی ہوتی اور اسے کوئی غیر معمولی اہمیت حاصل نہ ہوتی تو قرآن مجید اسے اتنی اہمیت نہ دیتا اور اس کے متعلق اتنے گہرے اور مضبوط ارشادات نہ فرماتا اور اسے بار بار نہ دہراتا۔
Flag Counter