[1]ترجمہ لکھا ہے۔ [2]1ابنِ ندیم نے فہرست میں لکھا ہے کہ ان کا تعلق سپاہی خاندان سے تھا۔ پھر علمی شغل اختیار فرمایا۔ [3]2 خطیب نے صراحت کی ہے وہ خلقِ قرآن کے قائل تھے۔ [4]3
مصنف کتاب التحقیق شرح حسامی نے اس کا تذکرہ ان الفاظ میں فرمایا ہے:
’’قال عيسيٰ بن أبان و عبدالجبار من المعتزلة‘‘ (ص: 175)
ان قرائن سے ظاہر ہوتا ہے کہ قاضی عیسیٰ بن ابان کا رجحان بھی اعتزال کی طرف تھا۔ ان کی وجہ سے فروع میں بھی اخبارِ آحاد کو اشتباہ کی نظر سے دیکھا جانے لگا۔ چنانچہ عادل و ضابط راوی اگر فقیہ نہ ہو تو اس کی روایت مقبول نہیں ہو گی، بلکہ قیاس کو اس کی روایت پر ترجیح دی جائے گی:
’’و أما رواية من لم يعرف بالفقه، ولكنه معروف بالعدالة والضبط، مثل أبي هريرة و أنس بن مالك، فإن وافق القياس عمل به، وإن خالفه لم يترك إلا بالضرورة‘‘ (أصول بزدوي، ص: 169، احكام آمدي: 2/169)
’’عادل اور ضابط راوی اگر فقیہ نہ ہو، جیسے ابو ہریرہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ تو ان کی روایت اگر قیاس کے موافق ہو تو قبول کی جائے ورنہ اسے ضرورتاً ترک کر دیا جائے گا۔‘‘
قاضی عبدالعزیز بن احمد شارح اصول بزدوی فرماتے ہیں:
’’حدیث کو قیاس پر مقدم کرنے کے لیے ہم نے جو فقہ راوی کی شرط لگائی، یہ صرف عیسیٰ بن ابان کا مذہب ہے اور قاضی ابو زید دبوسی نے اسے پسند کیا اور مصراۃ اور عرایا کی حدیث کو اسی اصول پر تخریج کیا ہے اور بہت سے متاخرین نے اسے اپنا لیا۔ امام ابو الحسن کرخی اور باقی قدماءِ احناف اس کے خلاف ہیں۔ وہ فرماتے ہیں: عادل اور ضابط راوی کی
|