عامۃ المسلمین اور علماءِ احناف دونوں کے لیے مخلصی کی راہ پیدا فرمائی، تو یہ سب حنفی مسلک کے خلاف تھا۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’باب حكم المفقود في أهله وماله‘‘ میں مفقود کو ’’لقطة‘‘ پر قیاس فرمایا ہے۔ ان کی رائے یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ اس مسئلہ میں امام مالک سے بھی مظلوم کو زیادہ رعایت دینا چاہتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے دو اثر ذکر فرمائے ہیں:
(1) سعید بن مسیب کا اثر۔ اگر لڑائی کی صفوں میں خاوند مفقود ہو جائے، تو ایک سال انتظار کے بعد نکاح کرے۔ [1]
(2) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک لونڈی خریدی، اس کا مالک مفقود الخبر ہو گیا۔ حضرت عبداللہ نے ایک سال کے انتظار کے بعد اس کی قیمت بتدریج فی سبیل اللہ خرچ کر دی۔ خیال یہ تھا اگر بائع آ گیا تو دے دوں گا، ورنہ اس کا اجر اس کو ملے گا۔ [2]
(3) قیدی کے متعلق امام زہری کا فتویٰ نقل فرمایا۔ اگر قیدی کا پتہ معلوم ہو، تو اس کی بیوی کو نکاح کی اجازت نہیں ہو گی، ورنہ ایک سال انتظار کے بعد نکاح کر سکتی ہے۔ [3] اس کے لیے یزید مولی منبعث کی مرفوع حدیث ’’لقطه‘‘ کے متعلق بیان فرمائی ہے، جس کا مطلب ظاہر ہے کہ امام بخاری مفقود کی منکوحہ کو ایک سال انتظار کا فتویٰ دیتے ہیں۔ آج کے حالات اس سے بھی زیادہ اس مظلوم کے ساتھ رعایت کا تقاضا کرتے ہیں۔ بنیاد قرآن کا ارشاد ہے:
﴿ وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوا ﴾ (البقرۃ: 231)
جہاں عورت کو ضرر محسوس ہو، اس کی مخلصی کے لیے بواسطہ قاضی کوئی نہ کوئی راہ تلاش ہونی چاہیے، کیونکہ عورت کو تکلیف دے کر بند رکھنا درست نہیں۔
|