’’والمتواترة (من السنة) إما متواتر بالتعامل كأكثر أصول العبادات والمعاملات والأخلاق، أو متواترة بالرواية، أما بالمعني فقط وهي كثيرة، أو باللفظ أيضا وهي قليلة جدا‘‘ [1]
یعنی سنت یا متواتر بالتعامل ہو گی۔ تمام اصول عبادات، معاملات اور اخلاق متواتر بالتعامل ہیں۔ یا صرف متواتر بالمعنی یا متواتر باللفظ والمعنی اور یہ فی الواقع کم ہے۔
صاحبِ ’’مسلّم الثبوت‘‘ نے حافظ ابن صلاح رحمہ اللہ کے متذکرہ قول کا ذکر کر کے اس کی توجیہ ان الفاظ میں کی ہے:
’’قد يقال: مراده التواتر لفظا، وإلا فحديث المسح علي الخفين متواتر، رواه سبعون صحابيا، وقيل: حديث أنزل القرآن علي سبعة أحرف، متواتر، رواه عشرون من الأصحاب، وقال ابن الجوزي: تتبعت الأحاديث المتواترة فبلغت جملة ۔۔۔ الخ‘‘ (مسلّم الثبوت: 2/78) [2]
’’ابن صلاح کی مراد تواتر لفظی ہے، ورنہ مسح علی الخفین کی روایت متواتر ہے اور سات قراءت کی روایت بھی متواتر ہے۔ ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے متواتر احادیث کی تلاش کی، تو مجھے خاصہ ایک مجموعہ دستیاب ہو گیا۔‘‘
حافظ سیوطی کی کتاب ’’الأزهار المتناثرة في الأحاديث المتواترة‘‘ اہل علم کے ہاتھوں میں موجود ہے، جس میں بیسیوں روایتوں کے متعلق تواتر کا دعویٰ کیا گیا ہے، حتیٰ کہ رفع الیدین فی الرکوع اور رفع سبابہ کی روایات کو بھی انہوں نے متواتر شمار کیا ہے۔ یہ کتاب ’’الفوائد المتكاثره‘‘ کی تلخیص ہے۔ حافظ سیوطی رحمہ اللہ نے اس میں وہ روایات جمع کی ہیں جو کم از کم دس صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں۔ میرے پاس اس کا قلمی نسخہ موجود ہے۔
حافظ ابن صلاح رحمہ اللہ کی جلالت شان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اگر ان کے ارشاد کو ان کی منشا کے خلاف نہ اچھالا جاتا، تو تواتر کے مفہوم اور اقساط کے بسط کی چنداں ضرورت نہ تھی۔
|