Maktaba Wahhabi

200 - 676
اصول کی بنا پر اگر احادیث پر غور کریں، جس کے توسط سے یہ احادیث ہم تک پہنچی ہیں، ان کی جلالتِ قدر اور صدق و محنت پر نظر رکھیں، تو احادیث میں ایک بڑا ذخیرہ متواتر کا موجود ملے گا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’نزهة النظر‘‘[1]میں اور طاہر بن صالح الجزائری نے ’’توجيه النظر‘‘[2]میں یہ نظریہ اختصار اور تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔ ایک موقع پر فرماتے ہیں: ’’وقد وقع هنا من الإبهام والإيهام في العبارات ما يضر بالمبتدي، فإنه ربما توهم منها أنه ليس في السنة متواتر مع أن ما تواتر منها، سواء كان من جهة اللفظ أو من جهة المعني، كثير، يعسر إحصاؤه غير أن الأئمة المتعرضين لضبط السنة لم يتعرضوا له، لأنه ليس من مباحثهم‘‘ (توجيه النظر:48) [3] ’’متواتر کے متعلق علماء کی عبارات میں کچھ ابہام اور وہم سا ہوتا ہے۔ خطرہ ہے کہ متبدی اس غلطی میں مبتلا نہ ہو جائے کہ سنت میں کوئی متواتر ہے ہی نہیں، حالانکہ سنت میں متواتر باللفظ اور متواتر بالمعنی کی کثرت ہے، جسے شمار کرنا مشکل ہے۔ ائمہ حدیث نے اس طرف توجہ نہیں فرمائی، کیونکہ یہ ان کے مباحث سے نہیں ہے۔‘‘ اسی طرح متواتر بالتعامل یا متواتر سکوتی بھی بڑی کثرت سے پائی جاتی ہیں، بلکہ اصول عبادات، اصول معاملات اور اصول اخلاق میں جو احادیث وارد ہیں، سب متواتر بالتعامل ہیں۔ مجھے تعجب ہے کہ بڑے سمجھدار اہل قرآن نے عبادات متواترہ کو علی خلاف التعامل خواہ مخواہ قرآن سے کشید کرنے کی کوشش کی اور ایسے ایسے اکتشافات فرمائے ہیں کہ رہتی دنیا تک اہل دانست ان پر تعجب کریں گے۔ شکر ہے کہ معاملات اور اخلاق کی طرف ان کی نگاہیں نہیں اٹھیں، ورنہ عجائبات کے کئی عوالم پیدا ہو جاتے۔ اصول حدیث اور اصول فقہ کے مبتدی بھی تواتر کی ان اقسام کو جانتے ہیں اور عقل سلیم ان حقائق کی شاہد ہے، گو اس کے متعلق علمی اصطلاحات میں اہل دانش گفتگو نہ کر سکے۔ مولانا سید اسماعیل شہید دہلوی رحمہ اللہ نے اپنے رسالہ ’’اصول فقہ‘‘ میں فرمایا:
Flag Counter