Maktaba Wahhabi

605 - 676
امام کے ساتھ روا رکھی گئی۔ یہ لوگ آنے والے جرائم میں برابر شریک ہیں۔ اس میں بھی شک نہیں کہ مدینہ کے اس ہنگامہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روش اس قدر صاف نہیں، جتنا اسے صاف ہونا چاہیے۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا تدبر اس وقت، وقت کے تقاضوں کے مطابق تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دامن اس سازش سے بالکل پاک ہے، لیکن ان کی خاموشی ان کی پوزیشن کو مشکوک ضرور قرار دیتی ہے۔ لیکن امام زہری رحمہ اللہ کا قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے کیا رابطہ تھا؟ ان کا تعلق خلفاءِ بنی امیہ عبدالملک بن مروان، ہشام بن عبدالملک اور عمر بن عبدالعزیز سے تھا۔ یہی ارباب خیر اور ارباب اقتدار تھے، جن سے امام زہری رحمہ اللہ کے مراسم رہے۔ اس وقت قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کا دخل نہ اقتدار میں تھا نہ ہی علمی محفلوں میں ان کی کوئی وقعت تھی، اس لیے زہری پر قاتلین عثمان سے سازش کی تہمت عقل کا تقاضا ہی معلوم نہیں ہوتا۔ عمادی صاحب زہری رحمہ اللہ کے مراسم قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے بتاتے ہیں۔ مصر کا ملحد شیخ ابو ریّہ اور یورپین مستشرق گولڈزیہر انہیں بنو امیہ کی وفاداری سے متہم کرتے ہیں۔ ایک ایسا آدمی جو اپنا علمی کارنامہ تدوین حدیث پورا کرنے کے بعد اپنے خدا کو پیارا ہو گیا، اس کی پوری زندگی تاریخ کی امانت ہے۔ عمادی صاحب اور ان کے رفقاء ان کو قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کا ایجنٹ سمجھتے ہیں اور ملحدین یورپ اسے بنو اُمیہ کا حاشیہ بردار سمجھتے ہیں۔ کیا اس سے زیادہ کوئی شخص تاریخی مظلوم ہو سکتا ہے؟ ملحدین یورپ کے لیے تو غلط صحیح طور پر بنو اُمیہ کے اقتدار کی آڑ لی جا سکتی ہے، مگر ہمارے صاحب صرف تُک بازی پر گزر فرماتے ہیں۔ اس باؤلے پن کا انجام مینٹل ہسپتال ہی ہو سکتا ہے!! یہ دور بنی امیہ کے عروج کا ہے۔ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے کسی حلقہ میں بھی کوئی مقام نہیں۔ امام زہری رحمہ اللہ ایسا عقلمند اگر دنیا کے لیے کسی غلط راہ پر بھی چلتا، تو اس کے لیے بنو امیہ کی چوکھٹ سے بہتر کوئی مقام نہ تھا، حالانکہ زہری رحمہ اللہ کے خلوص اور بے نیازی کا یہ عالم ہے کہ عمرو بن دینار رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ما رأيت الدينار والدرهم عند أحد أهون منه عند الزهري كأنها بمنزلة البعر‘‘
Flag Counter