حقیقت یہ ہے کہ یہ محض فنی بحیثیں ہیں، جو فرصت کے اوقات میں رونق محفل کے طور پر پیدا ہوتی رہیں، مثلاً خبر واحد کے متعلق ان حضرات نے آٹھ شرطیں لگائی ہیں۔ چار مخبر میں، چار خبر میں۔ مخبر کے لیے ضروری ہے کہ مسلم ہو، عقل مند ہو، ضابط اور عادل ہو۔ اور خبر کے لیے ضروری ہے کہ کتاب اللہ کے خلاف نہ ہو، سنت متواترہ کے خلاف نہ ہو، عموم بلوی کے خلاف نہ ہو اور اختلاف میں متروک الاحتجاج نہ ہو، اس کے باوجود ظنی ہو گی، اس سے یقین اور طمانیت حاصل نہیں ہو سکے گی۔ جبائی اور بعض متکلمین کا خیال ہے کہ اس پر بھی عمل واجب نہیں۔ [1]
اب فرمائیے! اگر ان شرائط کے باوجود خبر قابل یقین نہ ہو، تو پھر یقین کیا آسمان سے آئے گا؟ ان مباحث میں مناظرانہ موشگافیوں کے سوا کچھ نہیں۔ یہ لوگ نفسیات سے قطعی نا آشنا معلوم ہوتے ہیں۔ قرائنِ حال اور اشخاص کی خصوصیات اور احوالِ رجال اور ان کے نتائج موثرہ سے ہمارے متکلمین بالکلیہ نا آشنا معلوم ہوتے ہیں۔ یہ علم کو کاروباری اور عملی زندگی سے بالکل علیحدہ سمجھتے ہیں۔
لسنا نقر بلفظة موضوعة
في الاصطلاح لشيعة اليونان
احذر تزل رجليك هوة
كم قد هويٰ فيها علي الأزمان [2]
(ابن قيم)
اس فنی بیماری سے آزاد، نفسیات سے صحیح آگاہ، علم و عمل کی سرحدوں کے مابہ الاشتراک اور مابہ الامتیاز سے صحیح آگاہ علماء اہلحدیث تھے، جو ہمیشہ ان ہوائی موشگافیوں سے الگ تھلگ رہے۔
ان کا فیصلہ بھی سن لیجیے:
’’ومذهب أكثر أصحاب الحديث، منهم أحمد بن حنبل و داود الظاهري، أن الاخبار التي أقر أهل الصنعة بصحتها، يوجب علم اليقين، لأن خبر الواحد لو لم يفده لما جاز اتباعه للنهي عن اتباع الظن، لقوله:
|