شك فيه، لم يحنث ۔۔ الخ‘‘ (تدريب، ص: 37) [1]
’’ابو نصر فرماتے ہیں کہ فقہاء نے اجماع کیا ہے کہ اگر کوئی شخص (تعلیقات کے علاوہ) صحیح بخاری کی ان روایات کے متعلق جو مقاصد کتاب میں شامل ہیں، قسم اٹھا لیتا ہے کہ یہ سب صحیح ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، تو اس کی قسم صحیح ہو گی۔‘‘
مولانا تمنا نے فرمایا ہے کہ محدثین حدیث کی صحت پر حلف نہیں کھاتے۔ یہ یہاں فقہاء کا اجماع مرقوم ہے، چونکہ یہ یقین نظری ہے ضروری نہیں، اس لیے اہل فن اور محدثین ہی اس کی حقیقت کو پا سکتے ہیں:
’’ثم حكي أن الأمة تلقت هذين الكتابين بالقبول، سوي أحرف يسيرة، انتقدها بعض الحفاظ كالدارقطني وغيره، ثم استنبط من ذلك القطع بصحة ما فيها من الأحاديث، لأن الأمة معصومة عن الخطأ فما ظنت صحته وجب عليه العمل به، ولا بد أن يكون صحيحا في نفس الأمر‘‘ (اختصار علوم الحديث للحافظ ابن كثير، ص: 23)
’’امت نے صحیحین کی احادیث کو (منتقد احادیث کے سوا) قبول کیا ہے اور امت معصوم عن الخطا ہے۔ امت کو جن احادیث کی صحت کا ظن ہے، وہ فی الواقع صحیح ہیں۔‘‘
حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جن احادیث کو امت نے قبول کیا، وہ قطعی اور یقینی ہیں۔ قاضی عبدالوہاب مالکی، شیخ ابو حامد اسفرائینی، قاضی ابو الطیب طبری، شیخ ابو اسحاق شیرازی شافعی، ابن حامد، ابو یعلیٰ بن فراء، ابن الخطاب، ابن زاغونی اور شمس الائمہ سرخسی اور اکثر متکلمین اور اکثر اشاعرہ اس کے قائل ہیں۔ تمام اہلحدیث کا یہی مذہب ہے اور ائمہ سلف کا یہی خیال تھا۔‘‘ (اختصار، ص: 23، صواعق مرسله: 2/362)
ہر صحیح حدیث کے متعلق محققین ائمہ حدیث کا یہی مذہب ہے کہ وہ قطعی الثبوت ہے۔ حافظ داود ظاہری، حسین بن علی کرابیسی، حارث بن اسد محاسبی، امام مالک اور حافظ ابن حزم اندلسی کا بھی
|