سنت کے ان حصوں پر جن میں کچھ تاریخی تذکرے موجود ہیں، شاید تھوڑی دیر کے لیے یہ لفظ گوارہ کیا جا سکے، لیکن اوامر و نواہی، ترغیب و ترہیب، زہد و ورع، اخلاق و عبادات اور اذکار و ادعیہ پر کیونکر تاریخ کا لفظ بولا جائے؟ ان حضرات نے اس معاملہ میں اس ذہنی سخاوت کا ثبوت دیا ہے جسے علمی بدحواسی سے زیادہ کچھ نہیں کہا جا سکتا، بلکہ ان فقرات میں دھوکہ اور دجل ہے جو ایک حوصلہ مند ملحد اور دلیر کافر اور بہادر منکر کے لیے بھی مناسب نہیں۔ ان الفاظ میں نفاق کی بدبو ہے۔ ﴿وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ ۚ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَ﴾
ایسے الفاظ وہی زبانیں کہہ سکتی ہیں جن کے دل ایمان کی حلاوت سے خالی ہوں۔ اللّٰهمَّ أَرِنَا الحَقَّ حقَّاً وَارْزُقْنَا اتِّبَاعَهُ وَأَرِنَا البَاطِلَ بَاطِلاً وَارْزُقْنَا اجْتِنَابَهُ
10۔ ﴿لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ ﴿١٦﴾ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ﴿١٧﴾ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ ﴿١٨﴾ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ ﴿١٩﴾﴾ (القیامة: 16 تا 19)
’’آپ وحی کی تلاوت میں جلدی نہ کریں، متفرقات کا جمع کرنا اور پڑھانا ہمارے ذمہ ہے۔ جب ہم پڑھ چکے تو تم پڑھو، پھر اس کے مقاصد کا بیان کرنا بھی ہمارے ذمہ ہے۔‘‘
(1) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نزولِ وحی کے ساتھ ہی ضبط کرنے کی کوشش فرماتے، تاکہ کوئی لفظ حفظ سے رہ نہ جائے۔ اس لیے فرمایا گیا کہ آپ اس کی فکر سے مطمئن رہیں۔ قرآن کا جمع کرنا اور پڑھانا اللہ تعالیٰ کا ذمہ ہے۔
(2) ﴿ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ﴾ بیان کا مطلب یہاں اظہارِ مقاصد کے سوا کچھ نہیں، اور یہ جمع اور قراءت سے بالکل مختلف ہے۔ پہلی دونوں چیزوں کا مقصد الفاظِ قرآن کی حفاظت ہے۔ بیان سے مقصد اظہار مطلب ہے جو وحی کی روح ہے۔ اگر یہ محفوظ نہ ہو تو ان الفاظ کی حفاظت چنداں مفید نہ ہو گی۔ وہی بیان ہے جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قول، فعل اور تقریر سے بیان فرمایا۔ ﴿إِنَّ﴾ حرف تاکید کے ساتھ ﴿عَلَيْنَا﴾ کو مقدم فرما کر بیان کی ذمہ داری بطور حصر اپنے ذمہ لے لی کہ بیان صرف ہمارے ذمہ ہے۔ اب سوچنا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس بیان کو اس تاکید سے اپنے ذمہ قرار دیا ہے، آیا ہوا بھی یا نہیں؟ محفوظ بھی رہا یا نہیں؟ آیت سے اشارتاً معلوم ہوتا ہے کہ اس بیان کی حفاظت کا ذمہ بھی لے لیا گیا ہے۔
|