(3) اگر رواۃ اور روایت، اسانید اور رجال کے ظنون و شکوک اسے بیکار کر سکتے تھے، انسانی علوم کی پیش بندیاں اسے غیر مستند کر سکتی تھیں تو پھر ﴿إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ﴾ کے مؤکد دعوے سے کیا فائدہ؟
(4) اگر اس بیان کا مصداق اصطلاحی حدیث نہیں تو پھر یہ بیان دنیا میں کہاں ہے؟ بہرحال یہ قرآن عزیز کے لفظی وجود سے تو جدا ہے۔
(5) اگر یہ بیان واقعی محفوظ نہیں رہ سکا اور یہ تاکید دیندار نہ رکھ رکھاؤ سے زیادہ نہیں تو پھر الفاظ کی حفاظت سے کیا فائدہ؟ الفاظ کی حفاظت سے معانی اور مقاصد کی حفاظت تو نہیں ہو گی۔
(6) اس کے ساتھ اس بات پر بھی غور کرنا ہے کہ آیا لغت کی حفاظت حدیث سے زیادہ کی گئی ہے؟ آیا قرآن کی زبان (عربی) انقلاب کی زد سے اب تک محفوظ ہے؟ ان گزارشات پر دانشمندانہ اور دیانتدارانہ غور کرنے کے بعد سنت کی حجیت واضح ہو جائے گی اور یہ قرآن ہی کا تقاضا ہے اور قرآن ہی کا منشا۔
(11) ﴿ فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِينَ وَتُنذِرَ بِهِ قَوْمًا لُّدًّا﴾ (مریم: 97)
’’ہم نے قرآن کو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی زبان پر آسان کر دیا ہے، تاکہ آپ بشارت و انذار دونوں مقاصد کو پورا کر سکیں۔‘‘
ا۔ ’’لسان‘‘ سے مراد عربی زبان ہو یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بصورتِ سنت و حدیث، دونوں احتمال ہو سکتے ہیں۔ میری ناقص رائے میں دوسرا احتمال راجح ہے۔ صرف عربی زبان مراد لینا ٹھیک نہیں۔ یہاں لسان کی اضافت ’’ک‘‘ خطاب کی طرف ہے۔ معلوم ہے کہ عربی زبان لاکھوں آدمی بولتے ہیں۔ اس تخصیص اور اضافت سے کیا فائدہ؟ عربی زبان میں قرآن کا نزول ایک دوسری خوبی ہے جس کا تذکرہ قرآن نے دوسرے مقامات میں فرمایا ہے۔
اگر ’’لسان‘‘ سے مراد یہاں عربی زبان لی جائے تو ﴿لِتُبَشِّرَ﴾ میں لام تعلیل بالکل بیکار ہو گا۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت نہ رہے گی، بلکہ ہر اہل زبان ایسا کر سکتا ہے۔ اس طرح آیت کی ترتیب میں کوئی خاص فائدہ نہ ہو گا۔
ب۔ قرآن کی سہولت اور آسانی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان کے ساتھ مقید فرمانے کے بعد اس کی علت کے طور پر دو چیزیں ذکر فرمائی ہیں: (1) تقویٰ کے لیے بشارت، (2) جدال پسند اور
|