خصومت پرست لوگوں کو ڈرانا۔ معلوم ہے کہ یہ مقصد صرف الفاظ کی تلاوت سے حاصل نہیں ہو سکتا، اس کے لیے افہام و تفہیم، وضاحت اور تشریح ضروری ہے اور اس سلسلہ میں عرب زبان دان اور عجمی برابر ہیں۔
اب اگر یہ تشریح اور وضاحت شرعاً حجت نہیں تو ﴿إِنَّمَا﴾ سے حصر اور اس پر بشارت و انذار کا ترتب بے مقصد ہوں گے۔ نبوت اور اس کے مقاصد کی پوری عمارت زمین بوس ہو جائے گی۔ ہمارے ان مفکرینِ قرآن نے شاید قرآن عزیز کو کبھی سوچ کر نہیں پڑھا۔ ﴿أَلَيْسَ مِنكُمْ رَجُلٌ رَّشِيدٌ﴾
(12) ﴿وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَىٰ مَا أَنزَلَ اللّٰه وَإِلَى الرَّسُولِ قَالُوا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۚ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ﴾ (المائدة: 104)
’’جب تم ان کو اللہ کی وحی اور اس کے رسول کی طرف دعوت دیتے ہو وہ کہتے ہیں ہمیں رسوم و عادات کافی ہیں جو اپنے بزرگوں سے ہمیں وراثت میں ملی ہیں، گو وہ بزرگ علم و ہدایت سے یکسر خالی ہوں۔‘‘
﴿إِلَى الرَّسُولِ﴾ بصورتِ عطف مذکور ہوا ہے اور معلوم ہے کہ معطوف اور معطوف علیہ عام حالت میں دونوں مستقل ہوتے ہیں اور مغایر بالذات۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ہمارے پاس روپیہ بھی ہے اور زمین بھی، تو اس مثال میں روپیہ اور زمین ایک نہیں ہو سکتے بلکہ دونوں الگ الگ ہوں گے۔
مولوی عبداللہ چکڑالوی آنجہانی ’’الرسول‘‘ سے مراد بھی قرآن ہی لیتے تھے۔ میری رائے میں یہ جہلِ عظیم ہے اور عربی زبان سے ناواقفیت پر مبنی۔ اس لیے کہ یہاں دعوت﴿إِلَى الرَّسُولِ﴾ کا مطلب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی طرف دعوت کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا، اور یہ دونوں بظاہر دو مستقل چیزیں ہیں اور دونوں کی حیثیت مساوی ہے۔ ((أُوتِيتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ)) [1]
’’الرسول‘‘ دعوتِ آسمانی کا ایک مستقل رکن ہے۔ جب ہر سنت صالحہ قابل اتباع ہے تو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے کیوں محروم رکھا جائے؟ اسے تو اور زیادہ واجب الاطاعت ہونا چاہیے۔
|