(4) ﴿لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللّٰه أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللّٰه وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللّٰه كَثِيرًا﴾ (الأحزاب: 21)
’’جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء ہی بہترین طریق کار ہے۔‘‘
’’أسوة‘‘ بالكسر والضم۔ اس حالت کا نام ہے جس میں انسان کسی کی اقتداء کرے، یہ اقتداء اچھائی میں ہو یا برائی میں۔ اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کو حسن سے مقید فرمایا گیا ہے۔ اس آیت میں مؤکد طور پر فرمایا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور افعال میں ان کی اقتدا اور اطاعت بہترین طریق کار ہے اور یہ اقتداء اور اتباع ہی اللہ تعالیٰ پر ایمان اور آخرت پر یقین کی دلیل ہے۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا جذبہ کسی دل میں نہیں تو نہ اسے اللہ تعالیٰ سے کوئی امید رکھنی چاہیے نہ قیامت ہی پر اس کا ایمان تصور کیا جا سکتا ہے۔
((مُحَمَّدٌ فَرْقٌ بَيُنَ النَّاسِ)) [1](الحدیث)
’’کفر اور اسلام میں فرق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ہے۔‘‘
یہ آیت سورہ احزاب میں ہے۔ اس سے پہلے متبنیٰ کی بیوی سے نکاح کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہے، پھر امہات المومنین کو ہدایت اور ان کے حقوق، پھر جنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی اقتداء، یہ تمام چیزیں اسوہ میں شامل ہیں۔ اس آیت نے دینی اور دنیوی تمام امور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اسوہ قرار دیا ہے اور اسے ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کے لیے اساس قرار دیا ہے۔
قرآن عزیز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بڑے حکیمانہ انداز میں بیان ہوئی ہے۔ اگر ان تمام مقامات کو ایک طالب علم کی طرح بغور پڑھا جائے تو سنت کی حجیت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کی فرضیت میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا، بلکہ یہ ایک مستقل باب ہے، جس کے لیے کسی دوسری صحبت کا انتظار کرنا چاہیے کہ قرآن میں سیرت کا تذکرہ کس طرح آیا ہے۔ [2]
|