فرمایا، اور حقیقت بھی یہی ہے، جس کے سر پر موت اور حدوث کی تلوار لٹک رہی ہو، وہ خدائی اور بے نیازی اور مختار مطلق ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ اس لحاظ سے دنیا کے عقل مندوں میں نہ کوئی خدا اور انبیاء کی وحدت کا قائل ہے نہ اس تفریق کو کفر کہنا قرین دانشمندی ہے۔ بنا بریں جس تفریق کو یہاں قطعی کفر کہا گیا ہے، وہ تفریق فی الاطاعت ہے۔ منافقین کی سیرت کا تذکرہ اسی انداز میں فرمایا گیا:
﴿ وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَىٰ مَا أَنزَلَ اللّٰه وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًا ﴾ (النساء: 61)
’’جب انہیں خدا اور رسول کی اطاعت کے لیے دعوت دی جاتی ہے تو منافق تمہارے نام سے بدکتے ہیں۔‘‘
یعنی چونکہ ان کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرمودات جوامع الکلام ہیں، اس لیے ان میں تاویل کی گنجائش مل جائے گی، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توضیحات و شروح آوارگی کی تمام راہوں کو روک دیتی ہیں، اسی وجہ سے اہل نفاق کا خیال تھا کہ خدا اور رسول میں بلحاظِ اطاعت تفریق قائم رہے۔ رسول کے ارشادات کو جب حجت اور اطاعت کے مقام سے گرا دیا جائے گا تو سنت کی تفصیلات سے نجات میسر آ جائے گی اور زندگی کی آوارگیوں کے لیے گنجائش نکل آئے گی، مگر قرآن فرماتا ہے یہ قطعی کفر کی راہ ہے۔ سنت کا مقام اطاعت میں قطعاً مستقل ہے۔ جس طرح قرآن کی تصریحات واجب الاطاعت ہیں، اسی طرح قرآن عزیز کے علاوہ جو تصریحات پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہوں گی، اگر قرآنی نصوص میں بصراحت موجود نہ ہوں تو بھی ان کی اطاعت بہ نص قرآن فرض ہے اور ان کا انکار کفر۔
آیت (4/152) میں اسی وحدت فی الاطاعت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور اہل ایمان کا تعارف اسی طرح کرایا گیا ہے:
﴿ وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ﴾ (النساء: 152)
یعنی یہ لوگ اللہ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت میں فرق نہیں کرتے، بلکہ دونوں کی اطاعت کو ضروری اور دونوں کے ارشادات کو حجت سمجھتے ہیں۔
کیونکہ یہ درحقیقت دو نہیں، ان کا منبع ایک ہی ہے:
|