افراد کے پاس خود جا کر تسلی دیا کرتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ حوادثات سے گھبرانا نہیں چاہیے، یہ بھی زندگی کے تجربات میں سے ہیں۔
عام حالات میں بھی اگر کبھی دو چار دن گزر جائیں، تو مجھ جیسے تہی دامن کے پاس بھی خود چل کر آ جاتے اور فرماتے برخوردار ملتے رہا کرو، نہ ملنے سے طبیعت اُداس ہو جاتی ہے۔
خودستائی سے شدید متنفر تھے۔ ایک دفعہ کانفرنس میں فوٹو گرافر آ گئے، تو انہوں نے کیمرہ والوں کی طرف چہرہ پر ہاتھ رکھ لیے اور فرمایا میں اسے ناجائز سمجھتا ہوں، لیکن کیمرہ والے بھی لوگ ایسے ہیں کہ ان کی زندگی کی متعدد تصاویر لے ہی لیں۔
دین و دانش کا مرقع آدمی کے روپ میں
اس طرح بن کر اٹھا تھا پاسبانی کے لیے
جس طرح سے گلستان میں طائرانِ خوشنما
چہچہاتے ہیں صبا کی ہمزبانی کے لیے
پاکستان بن جانے کے بعد اخبار ’’الاعتصام‘‘ جو مولانا عطاء اللہ صاحب حنیف نے جاری فرمایا تھا، 1949ء میں اسے جماعتی تحویل میں دے دیا گیا، جس میں وقتاً فوقتاً مضامین جاری فرماتے رہے۔ باوجود عالم دین ہونے کے طبیعت میں زہد و تقویٰ تھا اور شب بیداری عادت ثانیہ بن چکی تھی۔ اکثر دن کو بھی ذکر و اذکار میں مشغول رہتے، یا پھر اپنے دفتر مسجد چوک نیائیں میں اپنا وقت تحریر پر صَرف فرماتے تھے۔
آخری وقت غالباً 1967ء میں فالج کا حملہ ہوا تھا، جس کی وجہ سے طبیعت پر کمزوری کا اثر تھا، لیکن چند دنوں میں ہی افاقہ ہوا اور چلنے پھرنے کے قابل ہو گئے تھے، بالآخر دوسرا حملہ فالج کا ہی ہوا۔ 20 فروری 1968ء کو جائے نوش فرمانے لگے تھے کہ حملہ ہوا، ہاتھ سے چائے کی پیالی گر گئی اور چند لمحوں میں ہی عالم جاودانی کو سدھار گئے۔ إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
رات بھر بارش کی وجہ سے جنازہ خانہ کی گراؤنڈ میں پانی ہونے کی وجہ سے جنازہ سٹیڈیم میں لے جایا گیا۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت بھی یہی تھی، کیونکہ جنازہ میں موسم کی خرابی کے باوجود اتنے کثیر افراد نے شمولیت کی کہ دیکھنے والے حیران تھے کہ اتنے آدمی کہاں سے آ گئے۔ سٹیڈیم میں تِل رکھنے کو جگہ نہ تھی، بلکہ جی ٹی روڈ اور سیالکوٹ روڈ دونوں بند ہو چکی تھیں۔ جنازہ گھر سے روانہ ہوا اور ابھی تک لوگ گھر سے چل رہے تھے، جبکہ جنازہ سٹیڈیم میں پہنچ چکا تھا، قریباً میل لمبا جنازہ تھا۔
|