میں مجھے خرچ نہیں دینا ہوتا اور تنخواہ ساری انہی کاموں پر لگ جاتی ہے۔
مولانا نے تحریک خلافت سے لے کر تحریک آزادی تک تمام تحریکوں میں کام کیا اور متعدد بار جیل گئے۔ تحریک ختم نبوت کے مرکزی مجلس عاملہ کے رکن تھے۔
مولانا نے پہلا حج 1926ء میں کیا۔ سعودی حکمران شاہ عبدالعزیز 1925ء میں حجاز پر قابض ہوئے اور 1926ء میں علماء اہلحدیث انہیں مبارک باد وغیرہ کے لیے گئے، خصوصاً مولانا اسماعیل صاحب غزنوی کی تحریک پر بہت سے اہلحدیث حج کو گئے۔ ہمارے والد صاحب مولانا نور حسین صاحب رحمہ اللہ گھرجاکھی نے بھی پہلا حج 1926ء ہی میں کیا۔
مولانا صاحب تعلیم میں اتنے مشغول رہتے کہ میں نے ایک مرتبہ کہا: مولانا اب دوبارہ حج کو جانے کا ارادہ نہیں؟ فرمایا حج ایک ہی مرتبہ فرض ہے۔ اب اس کے علاوہ اور دینی فرائض بہت ہیں۔ بہرحال دوسرا حج پاکستان بن جانے کے بعد 1949ء میں کیا۔
پاکستان بننے سے پہلے اہلحدیث اجتماعی طور پر ’’اہلحدیث کانفرنس‘‘ کے نام سے کام کرتے رہے، جس میں اکثر طور پر سالانہ کانفرنس اور باہمی مشاورت وغیرہ سے آئندہ سال تک کے لیے کچھ پروگرام طے کیے جاتے۔
پاکستان بن جانے کے بعد خود حضرت صاحب کو جماعتی نظم کا خیال پیدا ہوا، تو حضرت مولانا داود غزنوی رحمہ اللہ کو ملے۔ دونوں نے مل کر جمعیت اہلحدیث کو منظم کرنے کی کوشش کی، چنانچہ 1949ء میں ہی ایک باقاعدہ باڈی بنا دی، جس کے پہلے صدر (بعد میں امیر کے لفظ سے تبدیل کر دیا گیا) حضرت مولانا داود صاحب غزنوی رحمہ اللہ اور ناظم اعلیٰ مولانا اسماعیل صاحب رحمہ اللہ سلفی مقرر ہوئے۔
مولانا 1949ء سے 1962ء تک ناظم اعلیٰ رہے اور مولانا داود صاحب کے فوت ہونے پر 1962ء سے تاحیات 1968ء تک امیر کے عہدہ پر فائز رہے۔ آپ 20 فروری 1968ء کے تیسرے پہر فوت ہوئے۔
علمی مشاغل:
مولانا صاحب جب سے گوجرانوالہ تشریف لائے، اس وقت سے ہی تعلیم و تدریس میں مشغول رہے اور پاکستان بن جانے کے بعد تک قریباً 1962ء تک چالیس سال متواتر تعلیم دیتے رہے۔ مولانا کے دستِ راست حضرت حافظ محمد صاحب رحمہ اللہ گوندلوی بھی گوندلانوالہ سے آ کر روزانہ تدریس کرتے
|