بھائی حکیم عبدالمجید صاحب آٹھ بھائی بہن تھے۔ مولانا اسماعیل صاحب سلفی رحمہ اللہ کے والد مولانا ابراہیم صاحب بہت صالح اور عابد و زاہد تھے۔ کتابت میں ماہر تھے۔ مولانا وحید الزمان صاحب کا مترجم قرآن مجید اور مولانا عبدالرحمٰن صاحب مبارکپوری رحمہ اللہ کی تصنیف ’’تحفۃ الاحوذی‘‘ انہیں کے ہاتھوں کی لکھی ہوئی ہے اور آج تک اسی کتاب کی فوٹو سے کتاب ہمارے ہاتھوں میں چل رہی ہے، جو اب متعدد مرتبہ ہندوستان، بیروت اور پاکستان سے بھی شائع ہو چکی ہے۔
حضرت مولانا ابراہیم صاحب رحمہ اللہ راقم الحروف (خالد گرجاکھی) کے استاد بھی ہیں۔ میں نے ان سے فارسی کتب: کریما، نام حق، شیخ عطار، گلستان اور غالباً بوستان کے کچھ سبق بھی پڑھے تھے۔ غالباً یہ 34-1933ء کے واقعات ہیں۔
حکیم عبدالمجید صاحب فرماتے ہیں کہ مولانا ابراہیم صاحب کے ہاں اولاد نہیں تھی، اسی وجہ سے اکثر وہ گھر سے باہر وزیر آباد مدرسہ میں حافظ عبدالمنان صاحب استاذ پنجاب کے پاس ہی رہا کرتے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے اپنی خواہش اولاد کے لیے حضرت حافظ صاحب سے دعا کروائی، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں لڑکا عنایت فرمایا۔ مولانا اسماعیل صاحب کا نام بھی حضرت حافظ عبدالمنان صاحب رحمہ اللہ ہی نے رکھا اور وعدہ لیا کہ اس کو دین کے لیے وقف رکھیں۔ یہ اپنے باپ کے اکلوتے لڑکے 1895ء میں پیدا ہوئے۔
مولانا کا پہلا مکتب ان کے باپ تھے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد انہیں وزیر آباد حافظ عبدالمنان صاحب رحمہ اللہ کے مدرسہ میں داخل کرایا گیا اور 1916ء میں حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ کی رحلت تک وہیں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد کچھ مولانا عبدالجبار غزنوی رحمہ اللہ کے پاس امرتسر میں تعلیم حاصل کی۔ پھر اس کے بعد سیالکوٹ حضرت مولانا ابراہیم صاحب میر رحمہ اللہ کے پاس تعلیم کے لیے چلے گئے۔
گوجرانوالہ کی جامع مسجد اہلحدیث چوک نیائیں کی بنیاد قریباً 1876ء میں رکھی گئی، جس کے پہلے خطیب مولانا علاؤ الدین صاحب مقرر ہوئے۔ 1908ء تک گوجرانوالہ میں صرف تین اہلحدیث کی مساجد تھیں، لیکن جمعہ صرف چوک نیائیں والی مسجد میں ہی ہوتا تھا۔ 1914ء میں باقاعدہ انجمن اہلحدیث بنائی گئی، جس کے محرک حضرت مولانا ثناء اللہ صاحب تھے، چنانچہ اسی انجمن کے تحت پہلا جلسہ بابو عطا محمد صاحب کی کوٹھی پر 1915ء میں ہوا، جس میں مولوی ثناء اللہ صاحب، حافظ عبدالمنان
|