حضرت سلفی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد ان کے تلمیذ مکرم مولانا محمد خالد گرجاکھی رحمہ اللہ نے حضرت سلفی رحمہ اللہ کے سوانح حیات کے بارے میں ایک کتابچہ شائع کیا تھا، جسے بعض اضافی معلومات کی بنا پر ذیل میں درج کیا جا رہا ہے:
حضرت استاذی المکرم مولانا محمد اسماعیل صاحب رحمہ اللہ دوسرے اکثر علماء کی طرح قدیم ہندوستان کے باشندوں میں سے تھے۔ مولانا حکیم عبدالمجید صاحب فرماتے تھے کہ قریباً دس بارہ پشت پہلے ہمارے آباء و اجداد مسلمان ہوئے تھے۔ نیز فرماتے تھے کہ میری پھوپھی صاحبہ بتایا کرتی تھیں کہ ہم راجپوت گھوت سے تعلق رکھتے ہیں۔ اغلباً جنجوعہ راجپوت تھے۔ ہمارے والد مرحوم کی اچانک موت سے انتظام درہم برہم ہو گیا اور ایک سال میں ہمارے گھر میں تین دفعہ چوری ہوئی۔ اس میں خصوصاً کتابوں اور کاغذات کی چوری سے بہت نقصان ہوا۔
ہمارے نواح میں ایک پیر صاحب تھے، چونکہ پریس کا زمانہ نہیں تھا، کتابیں قلمی ہوتی تھیں، پیر صاحب نے کوئی کتاب مانگی، نہ دینے پر انہوں نے چوری کرائی، جس میں خصوصاً کتابیں اور کاغذات ہی چوری ہوئے، یہاں تک کہ پرانے مسودے خچروں پر لاد کر لے جائے گئے۔
حکیم عبدالمجید صاحب کی روایت ہی سے خاندان کا جو پتا چلتا ہے کہ حضرت مولانا اسماعیل صاحب رحمہ اللہ کے پردادا محکم دین صاحب تھے۔ قریباً دس پشت سے علمی خاندان چلا آ رہا تھا، جن میں سے یہ بزرگ بھی تھے۔ کتابت اور حکمت ورثہ میں آ رہی تھی۔ سابقہ مقام سوہدرہ میں تھا، وہاں پر مغل حکومت کی طرف سے مدار المہام کے عہدہ پر فائز تھے۔ حوادثات زمانہ اور حکومتوں کے انقلابات نے ہمیں کولو تارڑ پہنچا دیا، وہاں پر بھی ایک حادثہ کی وجہ سے نکل کر حضرت کیلیانوالہ آ گئے، پھر رتہ سخی میں رہے، وہاں سے ڈھونیکے آ گئے، ان لوگوں نے ان کی بہت قدر کی اور دو کنویں مع اراضی ان کو تاحین حیات دے دیے۔
محکم دین کے لڑکے عبداللہ تھے، یعنی مولانا اسماعیل صاحب رحمہ اللہ کے دادا۔ عبداللہ جوانی میں ہی فوت ہو گئے، جس کا محکم دین صاحب کو بہت صدمہ ہوا اور قریباً گھر سے نکل کر فقیرانہ زندگی اختیار کر لی اور زیادہ عرصہ بھروکی میں رہے۔
مولانا اسماعیل سلفی صاحب رحمہ اللہ اپنے باپ کے اکلوتے لڑکے تھے، جبکہ ان کے چچیرے
|