سے پڑھی۔ حضرت حافظ صاحب مرحوم سید نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ کے اکابر تلامذہ میں سے تھے۔ شیخ حسین بن محسن انصاری رحمہ اللہ سے بھی آپ کو اجازت حدیث تھی۔ مولانا عبدالحق بنارسی رحمہ اللہ شاگرد امام شوکانی رحمہ اللہ سے بھی شرف تلمذ تھا، تفسیر بیضاوی حضرت مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی سے پڑھی۔ ادب اور معقولات کی کتابیں مولانا محمد حسن (امرتسری) کے مدرسہ میں مختلف اساتذہ سے پڑھیں۔ شرح وقایہ حضرت مفتی محمد حسن صاحب سے پڑھی۔ مطول، مختصر المعانی، ہدایہ اولین و آخرین علامہ محمد حسین ہزاروی سے پڑھی، جو مدرسہ غزنویہ امرتسر میں پڑھاتے تھے۔
1921ء سے 1930ء تک حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کے حسب حکم مناظرات کی طرف توجہ رہی۔ قادیانی، عیسائی اور چکڑالوی حضرات سے کئی جگہ گفتگو ہوئی، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس مرض سے نجات دے دی۔ رسمی مناظرات بالکل ترک کر دیے، اب طبیعت کی ان مناظرات کے ساتھ قطعاً موزونیت نہیں اور اس راہ کو باعث تسکین سمجھتا ہوں۔
1921ء سے گوجرانوالہ جامع مسجد میں مقیم ہوں۔ درس و تدریس کا مشغلہ مسلسل چل رہا ہے۔ مدرسہ محمدیہ کے نام سے جاری ہے۔ اس کے ساتھ شعبہ حفظ و تجوید بھی ہے۔ اس وقت مدرسین کی تعداد تقریباً 9 ہے، حجیت حدیث کے متعلق چند رسائل لکھے ہیں:
(1) حدیث کی تشریعی اہمیت۔
(2) جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث۔
(3) مقام حدیث قرآن کی روشنی میں۔
(4) نیز تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی وغیرہ۔
ایڈیٹری بالکل نہیں کی۔ خطابت کا سلسلہ گوجرانوالہ جامع اہل حدیث میں مسلسل جاری ہے۔ جمعیت کی تاسیس 1948ء میں ہوئی۔ اس وقت سے اس کے ساتھ تعلق ہے۔ اب بھی ’’كبرني موت الكبراء‘‘ کے مصداق تعلق قائم ہے۔ دعا ہے کہ اسی راہ سے اللہ دین کی خدمت اور کتاب و سنت کی اشاعت کا موقع بہم پہنچا دے اور انجام بخیر ہو۔ والسلام
فقط
محمد اسماعیل کان اللہ لہ [1]
|