Maktaba Wahhabi

670 - 676
’’یعنی شرعی علوم میں مذموم اور ناپسند علوم کا اختلاط اور التباس اس لیے ہوا کہ علوم کے اچھے نام جو زمانہ سلف میں بولے جاتے تھے، اپنی فاسد اغراض کے لیے بدل دیے گئے اور ان کو ایسے مطالب پر بولا گیا، جن پر قرون خیر میں ان کا اطلاق نہیں ہوتا تھا، نہ ہی ائمہ سلف ان الفاظ سے یہ مطالب مراد لیتے تھے: یہ پانچ نام ہیں: فقہ، علم، توحید، تذکیر، حکمت۔ یہ بہت اچھے نام ہیں۔ ان کے جاننے والوں کا دین میں بہت بلند منصب تھا، لیکن اب ان کو مذموم معانی پر بولا جانے لگا۔ اب ان سے اور ان کے جاننے والوں سے دل نفرت کرتا ہے، کیونکہ ان ناپسندیدہ معانی پر ان کا اطلاق عام ہو گیا ہے۔ فقہ کے مفہوم میں نقل اور تحویل کی بجائے ان لوگوں نے تخصیص پیدا کر دی ہے۔ اب اسے فتوؤں میں فقہ غیر معروف اور تعجب انگیز فروع پر بولا جاتا ہے۔ اس پر طویل گفتگو اور بال کی کھال اتارنے اور ان کے علل اور وجوہ میں تعمق کا نام فقہ رکھ دیا گیا ہے۔ جو ان میں زیادہ وقت ضائع کرے، اسے ’’اَفقہ‘‘ کہا جاتا ہے، حالانکہ قرون اولی میں یہ لفظ نفس کے امراض کی پہچان اور علوم آخرت کی معرفت پر بولا جاتا ہے۔ امام فرماتے ہیں کہ آیت کریمہ: ﴿لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ﴾ سے ظاہر ہے کہ دین کے فہم سے جو اِنذار اور خوف پیدا ہوتا ہے، اسے فقہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ طلاق، عتاق، لعان، سلم، اجارہ وغیرہ مسائل کے جاننے سے یہ اِنذار ہوتا ہے نہ خوف، بلکہ صرف ان مسائل میں مشغولیت سے دل اور سخت ہو جاتا ہے اور خشیت الٰہی اس سے مفقود ہو جاتی ہے، اسی طرح حکمت سے فلسفہ، توحید سے صفات باری کی نفی، علم سے یونانی علوم یا علم کلام، تذکیر سے قصہ گوئی کا پیشہ مراد لے لیا گیا اور اصل مفہوم بالکل ہی نظر انداز ہو گیا۔‘‘ امام غزالی رحمہ اللہ کے اس ارشاد کا تذکرہ علامہ کاتب چلپی (1067ھ) نے ’’كشف الظنون‘‘ (2/91) نواب صدیق حسن خاں مرحوم نے ’’أبجد العلوم‘‘ (2/560) اور علامہ سید محمد علی الپشاوری نے ’’القول المأمول في فن الأصول‘‘ (ص: 7) میں اور طاش کبریٰ زادہ (963ھ)،
Flag Counter