Maktaba Wahhabi

671 - 676
’’مفتاح السعادة‘‘ (3/3) وغیرہ کتب میں اجمال اور تفصیل سے فرمایا ہے اور غزالی کی اس رائے پر کوئی تنقید نہیں فرمائی، بلکہ اسے پسند فرمایا اور اسے حقیقت پسندی کی نگاہ سے ذکر فرمایا ہے۔ ہمارے یہ بزرگ جب محدثین اور فقہاءِ حدیث اور ان کے اَتباع پر فقہ و درایت سے بے خبری کا الزام دیتے ہیں، تو ان کی مراد متعارف اور فنی فقہ ہوتی ہے، جس نے ان حضرات کی درس گاہوں میں صنعت و حرفت کی شکل اختیار کر لی ہے۔ نزول قرآن کے وقت نہ ان فقہی جزئیات کا کوئی وجود تھا نہ فقہ کے ان دفاتر کا۔ استنباط اور استخراجِ مسائل کی ضرورت ہوتی تھی، لیکن اسے فقہ سے تعبیر نہیں کیا جاتا تھا، نہ اس کی پابندی واجب سمجھی جاتی تھی۔ معلوم نہیں کہ یہ فن اگر کسی کو نہ بھی معلوم ہو، تو اس میں کیا عیب ہے؟ دنیا میں کئی حرفتیں اور پیشے ہیں، کئی علوم ہیں، جن کو آپ حضرات نہیں جانتے۔ اگر یہ ’’أبواب الحِيَل‘‘ نہ معلوم ہوں تو کیا حرج ہے؟ پھر اس فن اور ان جزئیات فقیہہ کے فہم میں بھی تفاوت ہے۔ کئی لوگوں میں انتہائی ظاہریت ہوتی ہے۔ بعض ذرا گہرائی میں چلے جاتے ہیں اور جب سے جامد تقلید کا شوق حضرات علماء کے اذہان پر محیط ہوا ہے، اس وقت سے ظاہریت اور حشویت عروج پر ہے۔ تحقیق اور دِقت نظر کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اس لیے کہ اجتہاد مجتہدانِ امت کے سوا باقی لوگوں کے لیے چوتھی صدی کے بعد ممنوع قرار پا چکا ہے۔ ایسے ہی ائمہ حدیث کا معاملہ ہے۔ فقہیات میں ان میں سے بعض کا مقام اتنا اونچا ہے کہ مروجہ فقہوں کے ماہر ان کی رفعتوں کو نہیں پا سکے۔ یہ حضرات نہ صرف فقہ الحدیث کے ماہر ہیں، بلکہ مروجہ فقہوں پر ان کی نظر بہت ہی عمیق ہے۔ وہ ان مروجہ فقہی مذاہب پر بڑی غائر تنقید فرماتے ہیں۔ بخاری، ترمذی، بیہقی، ابن خزیمہ اور ابن ابی شیبہ وغیرہم کی دقت نظر اہل علم میں مشہور ہے، اس لیے یہ ’’تالا بند‘‘ کا مسئلہ کسی علمی گروہ سے مخصوص نہیں۔ کم و بیش تمام طبقات میں سادہ لوح اور ظاہرین بھی پائے گئے ہیں۔ یہ عطّار اور حکیم کی مثال بھی اسی نوعیت کی ہے۔ مروجہ فقہی مسالک احناف، شوافع اور موالک میں بھی بڑے بڑے ’’عطّار‘‘ موجود ہیں۔ قدرے سن بھی لیجیے: (1) طہارت کے ابواب میں پانی کی طہارت کا مسئلہ کس قدر سطحی ہے۔ پانی کی مقدار میں ہ دردہ کا تعین بالکل غیر فقہی ہے۔ جن مآخذ سے یہ مقدار اخذ کی گئی ہے، اس میں بھی تفقہ اور
Flag Counter