اقرب الموارد، قاموس منجد وغیرہ کتب لغت میں بھی اس قسم کی تصریحات موجود ہیں۔
ان تصریحات کی روشنی میں ظن کا عربی مفہوم تو واضح ہو جاتا ہے۔ یعنی یہ لفظ علم و یقین میں بھی استعمال ہوتا ہے اور شک و تخمین کے مفہوم میں بھی بولا جاتا ہے۔ انحصار قرائن پر ہے۔ جیسے قرائن ہوں گے، ویسے ہی معانی میں استعمال ہو گا۔ علمائے عربیت کی رائے اس کے متعلق اور بھی صاف ہے۔ علامہ ابو البقایعیش (643ھ) مفصل زمخشری کی شرح میں فرماتے ہیں:
’’الظن أن يتعارض دليلان، ويترجح أحدهما علي الآخر، وقد يقويٰ المرجح فيستعمل بمعني العلم واليقين، نحو قوله تعاليٰ: ﴿ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَاقُو رَبِّهِمْ ﴾ (ابن یعیش: 2/77)
’’دو متعارض دلیلوں کا نام ظن ہے اور جب راجح قوی ہو تو اسے علم و یقین سے تعبیر کیا جاتا ہے، جیسے ﴿الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَاقُو رَبِّهِمْ﴾ سے ظاہر ہوتا ہے۔‘‘
پھر اسی کتاب کی ساتویں جلد میں مسئلہ اور بھی صاف فرما دیا ہے۔ قول اور رؤیت بھی کبھی ظن ہی کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے۔ غرض حواس ظاہری سے جو چیز معلوم کی جائے، اسے ضروری یا بدیہی کہنا چاہیے، اسی طرح جو چیزیں وجدان سے تعلق رکھتی ہیں، وہ بھی بدیہی اور ضروری ہوں گی، اور جو چیزیں عقل سے تعلق رکھتی ہیں، اگر عقلی دلائل متعارض ہوں اور ترجیح کی کوئی وجہ نہ ہو تو اسے تردد یا شک کہنا چاہیے، اور اگر ترجیح کے دلائل مل جائیں تو راجح کو ظن کہا جاتا ہے اور مرجوح کو شک یا وہم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ 1ھ (ابن یعیش: 7/78-81)
علامہ حسین بن محمد بن مفصل راغب اصفہانی (502ھ) نے ’’مفردات القرآن‘‘ میں ان قرائن کو ایک قاعدہ کی صورت دی ہے۔ فرماتے ہیں:
’’و متيٰ قوي أو تصور تصور القوي استعمل معه ”أَنَّ“ المشددة، و”أَنْ“ المخففة منها، و متيٰ ضعف استعمل أن المختصة بالمعدومين من القول والفعل‘‘(مفردات راغب، ص: 319)
’’جب قرائن قوی ہوں تو ظن کا استعمال ’’أَنَّ‘‘ مشدد اور ’’أَنْ‘‘ مخفف کے ساتھ استعمال ہو گا، اور جب قرائن کمزور ہوں گے تو ’’أنْ‘‘ مخففہ کے ساتھ مستعمل ہو گا جو معدومات
|