المعني المراد منها مبنيا علي قواعد العربية و ضوابط الشريعة مطابقا لأحوال النبي صلي اللّٰه عليه وسلم‘‘
’’اس کا موضوع احادیث نبویہ بلحاظ معانی اور مقاصد ہے۔ اس کی غایت آداب نبویہ کے ساتھ تخلق ہے اور علوم عربیہ اس کے مبادی ہیں، یعنی اس علم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات اور عربی علوم کی روشنی میں احادیث کے معنی اور مفہوم سے بحث کی جاتی ہے۔‘‘
اوپر کی تعریفات سے فن درایت کے متعلق چند معلومات حاصل ہوتے ہیں:
(1) درایت کوئی مدون فن نہیں، بلکہ عربی زبان اور اس کے متعلقات اور اصول فقہ و اصول حدیث میں مزاولت اور مہارت سے خود بخود ایک ذہن پیدا ہوتا ہے، جس سے حدیث کے مفہوم کی بعض پیچیدگیاں بعض وقت حل ہو جاتی ہیں۔
(2) روایت اور رجال کے مباحث میں بھی اس سے فائدہ ہو سکتا ہے، لیکن اس کا زیادہ تر تعلق معانی اور مفہوم سے ہوتا ہے۔ بعض تاریخی مباحث بھی اس سے حل ہو سکتے ہیں۔ رجال کی موالید اور وفیات، اتصال، انقطاع، ارسال، اعضال وغیرہ کے متعلق بھی اس سے روشنی پڑتی ہے۔ گو ان مباحث کا براہ راست تعلق اصول حدیث سے ہے۔
(3) ناقلین تاریخ سے نسخ کے مباحث میں بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے، گو اصل اس کا اصول فقہ سے تعلق ہے۔
(4) حدیث کا طالب علم خوب جانتا ہے کہ حدیث کے رواۃ اور اسانید کے متعلق ائمہ حدیث نے کس قدر محنت فرمائی ہے اور ان کے حالات کی کس قدر چھان پھٹک کی ہے۔
تاریخ بھی ہمارے پاس اسی قسم کی اسانید کے واسطہ سے پہنچی ہے، تاریخ طبری۔ البدایہ والنہایہ اور مسعودی وغیرہ میں اسانید کا خاصا التزام کیا گیا ہے، لیکن یہ رواۃ اور اسانید، احادیث کے رواۃ اور اسانید کا مقابلہ نہیں کر سکتے، نہ ہی اس پر اس قدر محنت کی گئی ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ حدیث حجت شرعی ہے اور تاریخ شرعاً حجت نہیں۔
ائمہ اسلام میں بعض صرف محدث ہیں۔ بعض مؤرخ اور اخباری ہیں۔ بعض دونوں فنون کے ماہر ہیں۔ دونوں میں ان کی تصانیف موجود ہیں، لیکن دونوں کا ذوق ہر مقام پر مختلف ہوتا ہے۔
|