کرانے لگے، تو ایک بوڑھے نے کہا کہ میری نماز آپ کے پیچھے نہیں ہوتی۔ آپ نے رومال اٹھا کر کندھے پر ڈالا اور پیچھے ہٹ گئے اور کہا: بابا جی آپ جماعت کرائیں، میری نماز آپ کے پیچھے ہو جاتی ہے۔ وہ بوڑھا شرمندہ ہو گیا اور معافی مانگی اور پھر اصرار کر کے حضرت کی اقتدا میں جماعت ادا کی۔ ہم عصر علماء سے آپ کا برتاؤ مثالی تھا۔ یہ ممکن نہ تھا کہ کوئی شخص آپ کے پاس بیٹھے اور اثر قبول نہ کرے۔ دوران جیل آپ کی معیت مولانا ابو الحسنات کو نصیب ہوئی، جو مسجد وزیر خان کے امام اور پکے بریلوی تھے اور اہل حدیث کو کافر تک کہنے سے گریز نہیں کرتے تھے، مگر جب آپ سے ملاقات ہوئی، تو ایسے گرویدہ ہوئے کہ کئی دفعہ گوجرانوالہ میں ملاقات کے لیے تشریف لائے۔
حضرت میں بعض جواہر ایسے تھے۔ جو ہم عصر علماء میں نہ تھے۔ مردم شناس ایسے تھے کہ دیکھتے ہی تہ تک پہنچ جاتے تھے۔ خود پسندی اور نخوت سے نفرت تھی۔
اخلاص اور بے مثال مستقل مزاجی:
گوجرانوالہ تشریف لانے پر اہل حدیث ہونے کی پاداش میں ہر طرح کی مخالفت کا سابقہ پیش آیا اور بڑی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا، لیکن آپ نے استقلال، قناعت، جرأت اور اخلاص سے پوری نصف صدی گزار کر علماء کے سامنے ایک درخشاں مثال قائم کی۔ آپ کی برکات اور فیض کا اندازہ اس سے فرمائیے کہ جب حضرت گوجرانوالہ تشریف لائے تھے، تو شہر میں صرف ایک مسجد تھی اور سات آدمیوں کے وجود کا نام جماعت اہل حدیث تھا، لیکن اپنی وفات سے چند دن پیشتر 54 ویں مسجد کا سنگ بنیاد بدست خود رکھا اور آبادی کے تناسب سے تو جماعت شاید پورے پاکستان میں بے مثال ہو۔
بہرحال اگر اختصار کے ساتھ آپ کے محاسن پر نظر ڈالی جائے، تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ مولانا کو اپنے زمانے کے اکثر معاصرین پر برتری حاصل تھی، مگر اس کے باوجود وہ درویشی، سادگی، فروتنی اور تواضع کا مرقع تھے۔ قدرت نے انہیں بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا اور وہ انسانیت کی اعلیٰ ترین اقدار کے حامل تھے۔ ان کا آئینہ قلب صاف تھا۔ مومنانہ زندگی گزار کر اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ گمنامی کی صفوں سے اٹھے اور اپنی سعی و جستجو، عمل پیہم، خلوص، مسلسل محنت، لیاقت و قابلیت اور علمی لگن سے شہرت کے آسمان تک گئے۔
|