(1) ﴿أَطِيعُوا اللّٰه وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ﴾ (النساء: 59) میں دو اطاعتوں کا تذکرہ عطف کے ذریعہ کیا گیا ہے، جس کا اولین مفہوم تغایر اور استقلال ہے۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت قرآنِ عزیز کی نظر میں بالاستقلال فرض ہے۔ صیغہ امر سے بھی اولاً یہی مفہوم ہوتا ہے۔
(2) ﴿وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَىٰ مَا أَنزَلَ اللّٰه وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًا﴾ [1] (4/61)
’’جب ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی وحی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بلایا جائے، تو تمہیں معلوم ہو گا کہ منافق تمہارے نام سے رکتے اور بدکتے ہیں۔‘‘
(3) اس مقصد کی وضاحت سورہ نساء میں ایک اور انداز سے فرمائی ہے، جس میں اخلاق اور تشریع کی حد سے گزر کر تعزیر اور تادیب کا انداز اختیار فرمایا گیا ہے۔ ارشاد ہے:
﴿ إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللّٰه وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللّٰه وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا ﴿١٥٠﴾ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا ۚ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا ﴿١٥١﴾ وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللّٰه وَرُسُلِهِ وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ أُولَـٰئِكَ سَوْفَ يُؤْتِيهِمْ أُجُورَهُمْ ۗ وَكَانَ اللّٰه غَفُورًا رَّحِيمًا ﴾ [2] (4/150 تا 152)
’’جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور ان کا ارادہ یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسولوں میں تفریق قائم رہے، وہ کہتے ہیں ان میں بعض پر ایمان لائیں گے اور بعض کا انکار کریں گے اور وہ ایمان و کفر کے درمیان راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں، یہ لوگ یقیناً کافر ہیں اور اہل کفر عذاب کی رسوائیوں میں مبتلا ہوں گے اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان کے لیے اطاعت و انقیاد میں فرق نہیں کرتے، ان کے اجر ان کو ملیں گے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش ان کے شامل حال ہو گی۔‘‘
|