حضرت سلفی رحمہ اللہ کی ولادت باسعادت:
اس وقت تک مولانا محمد ابراہیم کے ہاں کوئی اولاد نہ تھی۔ آپ نے اپنے استاد گرامی حضرت مولانا حافظ عبدالمنان رحمہ اللہ صاحب سے دعا کی درخواست کی کہ اللہ رب العزت انہیں اولاد عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت حافظ صاحب کی دعا کو شرفِ قبولیت سے نوازا اور حافظ صاحب کو مولانا محمد ابراہیم کے ہاں ایک فرزند ارجمند کی ولادت کی بشارت دی گئی۔ اس بشارت کا ذکر حضرت حافظ صاحب نے اس سند میں بھی کیا ہے جو تحصیل علم کے بعد انہوں نے مولانا محمد اسماعیل رحمہ اللہ کو عطا فرمائی تھی۔ اس سند میں حافظ صاحب نے مولانا سلفی رحمہ اللہ کو ’’الولد الصالح‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے۔
مولانا سلفی رحمہ اللہ کی پیدائش 1314ھ بمطابق 1895ء تحصیل وزیر آباد کے قریب ایک گاؤں ڈھونیکے میں ہوئی۔
مولانا محمد ابراہیم اور مسلک اہل حدیث:
استاذِ پنجاب حضرت مولانا حافظ عبدالمنان رحمہ اللہ وزیر آبادی سے تلمذ اور مجالست کا اثر یہ ہوا کہ مولانا محمد ابراہیم صاحب نے حنفیت کے بجائے مسلک اہل حدیث اختیار کر لیا۔ ان کے سلفی العقیدہ ہونے کی بناء پر ان کو گاؤں کی مسجد میں نماز پڑھنے سے روک دیا گیا۔ وہ کئی برس اپنے گھر میں نماز ادا فرماتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو عزیمت سے نوازا تھا اور متوکل تھے۔ توحید کی برکات کی وجہ سے انہوں نے اس ناروا مقاطعے کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ آپ صاحب حیثیت زمیندار اور صاحبِ فن کاتب تھے اور اعلیٰ پائے کے طبیب بھی تھے۔ طبیب حاذق ہونے کی وجہ سے گاؤں والے آپ کے محتاج تھے۔ آخر کار یہ مقاطعہ اپنی موت آپ ہی مر گیا اور آپ گاؤں کی مسجد میں جا کر نماز ادا کرنے لگے۔
مولانا محمد ابراہیم صاحب پر تعلیم کا یہ اثر ہوا کہ انہوں نے اپنی کتابت کو صرف قرآن و حدیث تک محدود کر دیا۔ ان کی کتابت کے شاہکاروں میں ایک مولانا وحید الزمان کے ترجمے والا قرآن مجید ہے۔ دوسرا متداول شہکار تحفۃ الاحوذی ہے۔ یہ ترمذی شریف کی شرح ہے۔ یہ شرح جناب مولانا عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ نے لکھی ہے۔ اس کے چار حصے ہیں۔ مسودات ان کے پاس مبارکپور سے آتے تھے، پھر وہ کتابت شدہ کاپیاں بذریعہ ڈاک واپس بھیجتے تھے۔ مبارک پور (یو-پی-انڈیا)
|