مولانا محمد ابراہیم صاحب (حضرت سلفی رحمہ اللہ کے والد گرامی)
حضرت مولانا محمد ابراہیم بڑے عابد و زاہد بزرگ تھے۔ اپنے خاندانی ورثہ یعنی فن کتاب و حکمت میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔ فن نسخ اور نستعلیق دونوں میں ماہر تھے۔ آپ نے خاندانی روایات کے پیش نظر کتابت اور حکمت ہی کو اپنا ذریعہ معاش بنایا، چونکہ آپ نے صغر سنی ہی میں کتابت میں مہارت حاصل کر لی تھی، اس وجہ سے آپ نے حکمت پر کتابت کو ترجیح دی اور آغاز جوانی میں فن کتابت سے منسلک ہو گئے۔
اسی زمانے میں شیخ محی الدین صاحب دلی دروازہ لاہور میں اشاعتِ کتب کا کاروبار کرتے تھے۔ جناب محی الدین نومسلم تھے اور انہوں نے سکھ مت ترک کر کے اسلام قبول کیا تھا۔ نہایت متقی اور پرہیزگار انسان تھے۔ مولانا محمد ابراہیم فرمایا کرتے تھے کہ اذان کے بعد شیخ موصوف اپنا کاروبار بند کر دیتے تھے اور نماز ادا کرنے کے لیے مسجد میں تشریف لے جاتے تھے۔ ان شیخ محی الدین صاحب کے پاس مولانا محمد ابراہیم خوش نویسی کا کام کرتے تھے۔
استاذِ پنجاب حافظ عبدالمنان رحمہ اللہ صاحب سے رابطہ:
جناب صاحبزادہ فیض الحسن صاحب مرحوم کے اجداد میں سے کوئی صاحب اس علاقے کے پیر تھے۔ یہ پیر صاحب اکثر حکیم عبداللہ صاحب مرحوم کے گھر قیام فرماتے۔ جب حکیم عبداللہ صاحب کی وفات کے بعد یہ خاندان معاشی تنگ دستی کا شکار ہوا، تو حکیم صاحب کے صاحبزادے پیر صاحب کی کفالت سے دست کش ہو گئے۔ اس وجہ سے حضرت پیر صاحب سخت ناراض ہو گئے۔ انہوں نے اپنی ناراضی کا اظہار اس انداز سے کیا کہ مولانا محمد ابراہیم صاحب دل برداشتہ ہوئے اور وزیر آباد تشریف لے آئے۔
اسی زمانے میں استاذِ پنجاب حضرت حافظ عبدالمنان وزیر آبادی رحمہ اللہ، وزیر آباد ہی میں متمکن تھے۔ سارا علاقہ ان کی علمی ضیا پاشیوں کی وجہ سے بقعہ نور بن رہا تھا۔ خوش نصیبی سے مولانا محمد ابراہیم رحمہ اللہ بھی ان کے حلقہ درس میں بیٹھنے لگے، پھر باقاعدہ زانوائے تلمذ طے کیا اور استاذِ پنجاب سے علم حدیث میں دسترس حاصل کی، پھر اس تلمذ نے اتنی قربت حاصل کی کہ گھریلو معاملات بھی استاد اور شاگرد کے درمیان زیر بحث آنے لگے۔
|