Maktaba Wahhabi

61 - 676
روح رواں آپ ہی تھے، چنانچہ اس کا دفتر بھی مولانا کی سرپرستی میں گوجرانوالہ میں تھا۔ ناظم اعلیٰ حضرت مولانا قاضی عبدالرحیم تھے۔ 1946ء میں اہل حدیث کانفرنس دہلی میں بلائی گئی، تو آپ اس کے سیکرٹری منتخب ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد جہاں تک مغربی پاکستان کی جمعیت اہل حدیث کا تعلق ہے، یہ مولانا سلفی رحمہ اللہ کی مساعی و شبانہ روز محنت و ہمت کی رہین منت ہے۔ مولانا سید محمد داود غزنوی رحمہ اللہ کو ملکی سیاست کی دلدل سے نکال کر جماعت کی سربراہی کے لیے مولانا نے ہی آمادہ کیا تھا، پھر آخر تک حضرت موصوف کا ساتھ نبھایا۔ پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کے مطالبے میں ہر قدم پر مولانا غزنوی کے ساتھ جماعت کی نمائندگی کی، چنانچہ اس کمیٹی کے آپ رکن تھے، جو 1952ء میں اسلامی آئین کی تشکیل کے لیے بنائی گئی تھی۔ 1953ء کی تاریخی تحریک ختم نبوت کے دوران مجلس عمل تحفظ ختم نبوت میں جمعیت کے تین نمائندے تھے: (1) مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ، (2) مولانا سید محمد داود غزنوی رحمہ اللہ، (3) مولانا عطاء اللہ حنیف رحمہ اللہ۔ تاہم اس سلسلے میں قید و بند کا شرف حضرت مولانا محمد اسماعیل رحمہ اللہ کے حصے میں آیا۔ 1924ء میں ہندوستان میں شدھی تحریک شروع ہوئی اور مسلمانوں کو ہندو بنانے پر زور دیا جانے لگا، تو پنجاب سے ایک تبلیغی وفد ملکانوں کے علاقے میں تبلیغ کے لیے گیا۔ اس وفد میں حضرت مولانا سرفہرست تھے۔ عام معمولات زندگی: حضرت مولانا اتنی مصروف زندگی گزارتے تھے کہ حیرت ہوتی ہے کہ آپ ان فرائض سے کیسے عہدہ برآ ہوتے تھے۔ مسجد کے خطیب اور پانچوں نمازوں کے امام بھی تھے۔ آپ نے مدت العمر قرآن کا درس اس اہتمام سے دیا کہ ناغہ شاذ و نادر ہی ہوا ہو۔ تبلیغی اور تنظیمی سفر پر تشریف لے جاتے، تو کوشش یہی فرماتے کہ سفر جلد ختم ہو، تاکہ درس قرآن حکیم کے تسلسل میں فرق نہ پڑے۔ گوجرانوالہ میں آتے ہی مولانا نے فجر کے بعد درس قرآن شروع کر دیا تھا، جو سنتالیس برس تک تواتر کے ساتھ جاری رہا۔ درس کے یومیہ سامعین دو اڑھائی سو سے کم نہ ہوتے تھے۔ رمضان المبارک میں یہ تعداد پانچ سو کے قریب ہو جایا کرتی تھی۔ درس قرآن مجید اور خطبہ میں بھی ترتیب کے ساتھ
Flag Counter