اعمش رحمہ اللہ 148ھ میں فوت ہوئے۔ ان کا زمانہ عباسی انقلاب کا دور ہے، جبکہ اہل بیت اور اموی بغض کی نظروں سے دیکھے جاتے تھے۔ کسی نے ذرا استبداد کی مخالفت کی، تو ’’فيه تشيّع‘‘ کا خطاب پا لیا۔ آپ نے اپنا سیاسی انقلاب دیکھا، تقسیم کے نظریہ کی مخالفت یا موافقت کی بنا پر کتنی جلدی لیگی اور کانگریسی کے فتوے چسپاں ہوتے تھے۔ ’’فيه تشيّع‘‘ کا فتویٰ اعمش پر اسی نوعیت کا ہے۔
آپ نے جہاں ’’ميزان الاعتدال‘‘ سے ابن مبارک رحمہ اللہ اور مغیرہ بن مقسم رحمہ اللہ کا قول: ’’أهلك أهل الكوفة أبو إسحاق و أعمشكم۔۔الخ‘‘ نقل فرمایا ہے، وہیں مرقوم ہے:
’’وإلا فالأعمش عدل صادق ثبت صاحب سنّة و قرآن‘‘ (ميزان: 423، أيضاً: تاريخ بغداد: 9/9)
’’اعمش عادل ثقہ اہل السنۃ اور صاحب قرآن ہے۔‘‘
برادر محترم! اعمش کے سنّی ہونے پر رحم نہ سہی، اس کے اہل قرآن ہونے پر ہی رحم فرمایا ہوتا!!
مولانا! آپ نے محدثین کی نفسیات کی شکایت فرمائی ہے، میں جناب کی نفسیات کی جناب ہی سے شکایت کرتا ہوں کہ آپ نے اعمش رحمہ اللہ اور ابو اسحاق رحمہ اللہ کے متعلق اچھی نفسیات کا ثبوت نہیں دیا۔ ان پر صرف اس قدر عیب لگایا گیا ہے کہ ’’يحسن الظن بمن يحدثه‘‘[1]’’وہ اپنے اساتذہ پر بہت زیادہ حسن ظن رکھتے ہیں۔‘‘ گویا ان پر ناقدانہ نظر نہیں رکھتے۔ لیکن آپ نے تخلیق احادیث کے لیے کمیشن ایجنٹ بنا دیا کہ کوفہ اور کراسان میں ان کی ایجنسیاں قائم تھیں۔ إِنَّا لِلَّـهِ!
ایک متدین آدمی کے لیے یہ عادت مناسب نہیں۔ قرآن نے ﴿إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ﴾ (الحجرات: 12) فرمایا ہے۔ یہاں تو آپ کا خیال سرے ہی سے غلط ہے۔ آپ کی نفسیات کا محاسبہ کون کرے؟
مشکلے دارم ز دانشمند مجلس باز پرس
توبہ فرمایاں چرا خود توبہ کمتر می کنند
یہی حال ابو اسحاق سبیعی رحمہ اللہ کا ہے۔ وہ بہت بڑے عالم اور محدث تھے۔ آخر عمر میں ان کا حافظہ خراب ہو گیا۔[2] جریر بن عبدالحمید عن مغیرہ بن مقسم کی روایت پر آپ نے اعتماد فرما کر
|