ایسا بنا دیا ہے، جس میں اسلامی پرزوں کا ڈھلنا کافی مشکل ہے اور یہی سادہ لوح دراصل دراصل ان شکاریوں کا تختہ مشق ہے۔ انہی لوگوں کو پھانسنے کے لیے یہ منافقانہ روش اختیار کی گئی ہے اور یہ تمام جال ہم رنگ زمین بچھائے گئے ہیں۔
خداوند یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری
حال ہی میں ایک مضمون ’’طلوع اسلام‘‘ (شمارہ نمبر: 9) میں تمنا عمادی کے نام سے امام زہری کے نام سے شائع ہوا ہے۔ تمنا صاحب کی اس دور اندیشی کا تو مجھے اعتراف ہے کہ اگر ان کے تیر زہری کو مجروح کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو یقیناً فن حدیث اور ائمہ سنت پر ایک کامیاب حملہ ہو گا۔
زہری کا مقام فن حدیث اور دواوین رجال میں وہی ہے جو جالینوس کا یونانی طب میں، افلاطون کا یونانی فلسفہ میں۔ بلاشبہ امام زہری فن حدیث کی اساس ہیں۔ اکابر ائمہ حدیث کو ان سے شرف تلمذ حاصل ہے۔ ان کے اساتذہ کو ان پر فخر ہے اور ان کے تلامذہ کو ان پر ناز!
لیکن مضمون پڑھنے کے بعد آپ محسوس کریں گے کہ ’’ادارہ طلوع اسلام‘‘ مع تمنا صاحب اپنے مقاصد میں پورے طور پر ناکام ہے اور ان کا مضمون بے ضرورت طول کے باوجود قطعی ناتمام اور تحقیق سے بمراحل دور ہے۔
﴿فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا ۚ وَالْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ (الأنعام: 45)
ان گزارشات سے مقصد تمنا صاحب کا جواب ہے اور نہ ہی ان مغالطات کی نشاندہی مقصود ہے، جن کی وجہ سے میرے جیسا آدمی ’’مولانا‘‘ تمنا کی دیانت اور ادارہ ’’طلوع اسلام‘‘ کے ارادوں کو مشتبہ سمجھنے پر مجبور ہے۔ مقصد ان اوہام کی وضاحت ہے، جن سے فن حدیث کو مظنون اور مشتبہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ادارہ ’’طلوع اسلام‘‘ نے یہ مضمون ایک تعریفی نوٹ کے ساتھ شائع کیا ہے اور تمنا صاحب سے خواہش ظاہر کی ہے کہ طلوع اسلام پر آئندہ بھی ایسی نوازشیں ہوتی رہیں گی۔
میرا خیال ہے کہ ادارہ ’’طلوع اسلام‘‘ کے ممبر غالباً فن رجال سے قطعی نابلد ہیں۔ بعض احادیث نے انہیں اس طولانی افسانہ کی اشاعت پر آمادہ کیا ہے، ورنہ مضمون میں نہ کوئی جاذبیت
|