Maktaba Wahhabi

291 - 516
چاہیے، دوسرے نمبر پر وقتی اور عارضی علیحدگی ہے جو سمجھدار عورت کے لیے بہت بڑی تنبیہ ہے۔ اس سے بھی نہ سمجھے تو ہلکی سی مار کی اجازت ہے لیکن وحشیانہ مار پٹائی کی اجازت نہیں ہے جیسا کہ جاہل لوگوں کا وطیرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم کی اجازت کسی مرد کو نہیں دی ۔ اگر عورت اپنی اصلاح کرلے تو ستانے کی راہ نہ ڈھونڈو، مار پیٹ نہ کرو، تنگ نہ کرو اور نہ ہی طلاق دو۔ طلاق بالکل آخری مرحلہ ہے جب کوئی اور چارئہ کار ہی باقی نہ رہے لیکن کچھ مرد اس حق کو بھی بہت ناجائز طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر فوراً طلاق دے ڈالتے ہیں ۔ اپنی زندگی بھی برباد کرتے ہیں، عورت کی بھی اور بچے ہوں تو ان کی بھی۔ بیوی سے اختلاف پیدا ہو جائے تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے متذکرہ بالا تینوں طریقوں سے اصلاحِ احوال کی کوشش کی جائے، یہ تینوں طریقے کارگر ثابت نہ ہوں تو چوتھا طریقہ یہ ہے کہ اپنے ہی کنبے برادری میں سے ایک منصف مرد شوہر والوں میں سے اور ایک عورت کے گھر والوں میں سے مقرر کرو، اگر یہ دونوں صلح کرانا چاہیں گے تو اللہ تعالیٰ دونوں میں ملاپ کرادے گا۔ اگر انسان کو دنیا اور آخرت میں کامیابی مطلوب ہے تو وہ عورت کا انتخاب کرتے وقت صرف اس کے حسن و جمال، حسب و نسب یا مال و دولت ہی پر نظر نہ رکھے بلکہ دین کو ان سب پر مقدم رکھے اوردین دار اور پابند شریعت عورت ہی سے نکاح کرے، ایسی عورت دین و دنیا کی سعادت کا باعث ہو گی۔ عورتوں کے حقوق کے سلسلے میں مندرجہ ذیل احادیث راہنما ہیں۔ حدیث مبارک میں ارشاد ہے: ’’چار آدمی اللہ تعالیٰ کے غضب میں صبح کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے غضب میں شام کرتے ہیں، عورتوں سے مشابہت کرنے والے مرد، مردوں سے مشابہت کرنے والی عورتیں، جانوروں سے جماع کرنے والا اور ہم جنس پرست۔‘‘ (المعجم الأوسط للطبراني: 143/5، حدیث: 6858)
Flag Counter