بدعملی کا جواز بنا رکھا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم یقینا شفاعت فرمائیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کی شفاعت قبول بھی فرمائے گا اور جہنم کی سزا بھگتنے والے بہت سے گنہگاروں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت پر جہنم سے نکالا جائے گا مگر کیا جہنم کی یہ چند روزہ سزا قابلِ برداشت ہے کہ ہم شفاعت پر تکیہ کر کے گناہوں کی زندگی بسر کرتے رہیں؟ ایسی زندگی نہایت ڈھٹائی کی شرمناک زندگی ہوتی ہے۔حضرت جابرt روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اذان کا (جواب دے) اور پھر اذان ختم ہونے پر یہ دُعا پڑھے اس کے لیے قیامت کے دن میری شفاعت واجب ہو جاتی ہے: ’اَللّٰھُمَّ رَبَّ ھٰذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ وَالصَّلَاۃِ الْقَائِمَۃِ، آتِ مُحَمَّدَانِ الْوَسِیلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ، وَابْعَثْہُ مَقَامًا مَّحْمُوْدَا نِ الَّذِي وَعَدْتَّہٗ‘ (صحیح البخاري، الأذان، باب الدعاء عندالنداء، حدیث: 614)
قیامت کے دن کوئی کسی کے کام نہیں آئے گااور نہ کوئی سفارش قبول کی جائے گی
﴿وَاتَّقُوا يَوْمًا لَّا تَجْزِي نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ ﴾ ( البقرۃ 2: 48)
’’اور اس دن سے ڈرو جب کوئی جان کسی جان کو کچھ فائدہ نہیں دے گی اور نہ اس سے کوئی سفارش قبول کی جائے گی اور نہ اس سے کوئی عوض لیا جائے گا اور نہ ان کی مدد ہی کی جائے گی۔‘‘
اللہ کے حضور اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش نہیں کرسکتا
﴿ مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ﴾ ( البقرۃ 2: 48)
’’کون ہے جو اس کے سامنے اس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟‘‘
اپنے سفارشیوں پرمشرکین کا زعم بے کار ہے
﴿ وَلَقَدْ جِئْتُمُونَا فُرَادَىٰ كَمَا خَلَقْنَاكُمْ
’’اور یقینا تم ہمارے پاس اکیلے آئے ہو جس طرح
|