سلیمان علیہ السلام کے عصا کو گھُن کے کیڑے کا کھانا
﴿ فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَىٰ مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنسَأَتَهُ ۖ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَن لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ ﴾( سبا 34: 14)
’’پھر جب ہم نے سلیمان پر موت کا فیصلہ (نافذ) کیا تو ان (جنوں) کو زمین کے کیڑے (دیمک) کے سواکسی چیز نے بھی سلیمان کی موت کی اطلاع نہ دی، وہ اس کی لاٹھی کو کھاتا رہا، پھر جب وہ گر پڑا تو جنوں نے جان لیا کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو وہ اس رسواکن عذاب (مشقت) میں مبتلا نہ رہتے۔‘‘
میٹھا اور کھارا پانی
﴿ وَمَا يَسْتَوِي الْبَحْرَانِ هَـٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ سَائِغٌ شَرَابُهُ وَهَـٰذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ ۖ وَمِن كُلٍّ تَأْكُلُونَ لَحْمًا طَرِيًّا وَتَسْتَخْرِجُونَ حِلْيَةً تَلْبَسُونَهَا ۖ وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَوَاخِرَ لِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴾( فاطر 35: 12)
’’اور دو دریا برابر نہیں، یہ (ایک) میٹھا خوب میٹھا پینے میں خوشگوار ہے اور یہ (دوسرا) کھارا سخت کڑوا ہے اور ہر ایک میں سے تم تازہ گوشت (مچھلی) کھاتے ہو اور زیور نکالتے ہو جنھیں تم پہنتے ہو اور آپ اس (دریا) میں پانی کو پھاڑ کر چلنے والی کشتیاں دیکھیں گے، تاکہ تم اس (اللہ) کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم شکرکرو۔‘‘
سورج اور چاند کا اپنے اپنے معین مدار میں ٹھہرنا
﴿ يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّـهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ﴾(فاطر 13:35)
’’وہ رات کو دن میں داخل کرتا اوردن کو رات میں داخل کرتا ہے اور اس نے سورج اور چاند کو کام پر لگا دیا ہے، ہر ایک مقرر وقت تک چل رہا ہے،یہی اللہ تمھارا رب ہے، اسی کی بادشاہی ہے۔‘‘
|