أَوَلَمْ يَكُن لَّهُمْ آيَةً أَن يَعْلَمَهُ عُلَمَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ ﴿١٩٧﴾ وَلَوْ نَزَّلْنَاهُ عَلَىٰ بَعْضِ الْأَعْجَمِينَ ﴿١٩٨﴾ فَقَرَأَهُ عَلَيْهِم مَّا كَانُوا بِهِ مُؤْمِنِينَ ﴾(الشعراء26: 192۔199)
پہلی کتابوں میں بھی ہے۔ کیا ان کے لیے یہ ایک نشانی (کافی) نہیں کہ بنی اسرائیل کے علماء بھی اس (قرآن یا صاحب قرآن) کو جانتے ہیں۔ اگر ہم اس (قرآن) کو کسی عجمی پر نازل کرتے۔ پھر وہ اسے ان پر پڑھتا، (تو بھی) وہ اس پر ایمان نہ لاتے۔‘‘
قرآن اختلاف دور کرتا ہے
﴿إِنَّ هَـٰذَا الْقُرْآنَ يَقُصُّ عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَكْثَرَ الَّذِي هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ﴾(النمل 76:27)
’’بے شک یہ قرآن بنی اسرائیل پر اکثر وہ باتیں بیان کرتا ہے جن میں وہ اختلاف کرتے ہیں۔‘‘
علم سے احاطہ کیے بغیر اللہ کی آیتوں کو جھٹلانے والوں کا انجام
﴿حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوا قَالَ أَكَذَّبْتُم بِآيَاتِي وَلَمْ تُحِيطُوا بِهَا عِلْمًا أَمَّاذَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴾( النمل 27: 84)
’’ حتی کہ جب وہ سب (میدان محشر میں) آپہنچیں گے تواللہ فرمائے گا: کیا تم نے میری آیات کو جھٹلایا تھا، جبکہ تم نے علم سے ان کا احاطہ نہ کیا تھا، یا تم کیا کرتے رہے تھے؟‘‘
تلاوتِ قرآن کا حکم
﴿ وَأَنْ أَتْلُوَ الْقُرْآنَ ۖ فَمَنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَقُلْ إِنَّمَا أَنَا مِنَ الْمُنذِرِينَ﴾( النمل 27: 92)
’’اور یہ کہ میں قرآن پڑھوں، پھر جس نے ہدایت پائی تو بس وہ اپنی ہی ذات کے لیے ہدایت پاتا ہے، اور جو گمراہ ہوا توآپ کہہ دیجیے: میں توصرف ڈرانے والوں میں سے ہوں۔‘‘
|