يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنصِتُوا ۖ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَىٰ قَوْمِهِم مُّنذِرِينَ ﴿٢٩﴾ قَالُوا يَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنزِلَ مِن بَعْدِ مُوسَىٰ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ وَإِلَىٰ طَرِيقٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴾( الاحقاف 46: 30،29)
کوآپ کی طرف متوجہ کیا، جبکہ وہ قرآن سنتے تھے، پھر جب وہ اس(کی تلاوت سننے) کو حاضر ہوئے، تو (ایک دوسرے سے) کہا: خاموش رہو،چنانچہ جب (تلاوت) ختم ہوگئی تو وہ اپنی قوم کی طرف ڈرانے والے بن کر پھرے۔ انھوں نے کہا: اے ہماری قوم! بے شک ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل کی گئی ہے، وہ ان کتابوں کی تصدیق کرتی ہے جو اس سے پہلے کی ہیں، وہ حق کی طرف اور صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔‘‘
قرآن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اُترا
﴿ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَآمَنُوا بِمَا نُزِّلَ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَهُوَ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۙ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بَالَهُمْ﴾(محمد 47: 2)
’’اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیے، اور وہ اس (قرآن) پر بھی ایمان لائے، جو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پرنازل کیا گیا، اور وہ ان کے رب کی طرف سے حق ہے، اللہ نے ان سے ان کی برائیاں دور کردیں اور ان کے حال کی اصلاح کردی۔‘‘
قرآن جیسی ایک بات ہی لے آنے کا چیلنج
﴿ أَمْ يَقُولُونَ تَقَوَّلَهُ ۚ بَل لَّا يُؤْمِنُونَ ﴿٣٣﴾ فَلْيَأْتُوا بِحَدِيثٍ مِّثْلِهِ إِن كَانُوا صَادِقِينَ﴾( الطور 52: 34،33)
’’کیا وہ کہتے ہیں کہ اس نے خود ہی یہ (قرآن) گھڑا ہے؟ بلکہ وہ ایمان نہیں لاتے۔ پھر (انھیں) چاہیے کہ اس(قرآن) جیسی ایک بات لے آئیں اگر وہ سچے ہیں۔‘‘
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اسلام کی کوئی بات از خود نہیں کہی
﴿ وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا
’’اور وہ (اپنی) خواہش سے نہیں بولتا۔ وہ وحی ہی تو
|