14
(ب)رشتہ داروں کے حقوق
اسلام میں رشتے ناتے توڑنے، یعنی قطعٔ رحمی سے بچنے، قرابت داریوں کو ہر صورت میں قائم رکھنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی بڑی تاکید اور فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اسے صلۂ رحمی کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہو گا۔‘‘ (صحیح البخاري، حدیث: 5984) ایک اور حدیث میں فرمایا: ’’رحم، رحمن سے مشتق ہے، اللہ تعالیٰ نے رحم سے فرمایا: جو تجھے جوڑے گا میں بھی اسے جوڑوں گا اور جو تجھے توڑے گا میں بھی اسے توڑ ڈالوں گا۔‘‘ (صحیح البخاري، حدیث: 5988) صلہ رحمی کے دنیوی فوائد بھی ہیں۔ اس سے رزق میں فراخی اور عمر میں درازی پیدا ہوتی ہے۔ عزت اور وقار میں اضافہ ہوتا ہے۔ رشتہ داروں کے حقوق کے سلسلے میں ایمان والوں کی ایک نہایت اہم ذمے داری یہ ہے کہ وہ اپنے ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی اصلاح اور ان کی اسلامی تعلیم و تربیت کا اہتمام کریں تاکہ یہ سب جہنم کا ایندھن بننے سے بچ جائیں۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب بچہ سات سال کی عمر کو پہنچ جائے تو اُسے نماز کی تلقین کرو اور دس سال کی عمر کے بچوں میں نماز سے تساہل دیکھو تو انھیں سرزنش کرو۔ (سنن أبي داود، حدیث: 495 وجامع الترمذي، حدیث: 407) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا اور پھوپھی صفیہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ’’تم اللہ کے ہاں اپنے بچاؤ کا بندوبست کرلو، میں وہاں تمھارے کام نہیں آسکوں گا۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 206-204)
|