تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا ۚ إِنَّ رَحْمَتَ اللَّـهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ﴾ ( الاعراف 7 : 57،56)
نہیں کرتا۔ اور زمین کی اصلاح کے بعد تم اس میں فساد نہ کرو، اور اللہ کو خوف سے اور طمع کرتے ہوئے پکارو، بے شک اللہ کی رحمت احسان کرنے والوں کے قریب ہے۔‘‘
مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کرنے کی ممانعت
﴿ مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ ﴿١١٣﴾ وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِّلَّـهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ ۚ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ ﴾ ٰ( التوبۃ 9: 114،113)
’’نبی اور ایمان والوں کے لائق نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں، خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی ہوں، ان کے متعلق یہ واضح ہو جانے کے بعد کہ وہ بلاشبہ دوزخی ہیں۔ اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے بخشش کی دعا کرنا بس ایک وعدے کے باعث تھا جو وعدہ انھوں نے اس سے کیا تھا، پھر جب ابراہیم پر واضح ہوگیا کہ یقینا وہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے بیزار ہو گئے۔ بے شک ابراہیم بڑے نرم دل، بہت تحمل والے تھے۔‘‘
اللہ ہی سے بخشش مانگو اور اُسی کے حضور توبہ کرو
﴿ فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ ۚ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ﴾ ( ہود 11: 61)
’’چنانچہ تم اس سے بخشش مانگو، پھر اسی کی طرف توبہ کرو۔ بے شک میرا رب بہت قریب ہے، (دعائیں) قبول کرنے والا ہے۔‘‘
اللہ کو اس کے اسمائے حسنیٰ میں سے کسی بھی نام سے پکارنے کی اجازت
﴿ قُلِ ادْعُوا اللَّـهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَـٰنَ ۖ
’’کہہ دیجیے: (اللہ کو) ’’اللہ‘‘ کہہ کر پکارو یا ’’رحمن‘‘
|