تَحِيدُ ﴿١٩﴾ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ ۚ ذَٰلِكَ يَوْمُ الْوَعِيدِ ﴿٢٠﴾ وَجَاءَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّعَهَا سَائِقٌ وَشَهِيدٌ ﴿٢١﴾ لَّقَدْ كُنتَ فِي غَفْلَةٍ مِّنْ هَـٰذَا فَكَشَفْنَا عَنكَ غِطَاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ ﴿٢٢﴾ وَقَالَ قَرِينُهُ هَـٰذَا مَا لَدَيَّ عَتِيدٌ ﴾ ( ق 50: 16۔23)
(فرشتہ) تیار ہوتاہے اور موت کی سختی حق الیقین (موت) کو لے آتی ہے۔ (کہا جاتا ہے:) یہی ہے وہ (موت) جس سے تو بھاگتا تھا اور صور میں پھونکا جائے گا، یہ وعید (وعدۂ عذاب) کا دن ہے اور ہر نفس آئے گا، اس کے ساتھ ایک ہانکنے والا اور ایک شہادت دینے والا ہوگا، البتہ تحقیق تو اس سے غفلت میں تھا، تو ہم نے تجھ سے تیرا پردہ ہٹا دیا، چنانچہ آج تیری نگاہ بہت تیز ہے اور اس کا ساتھی (فرشتہ) کہے گا: یہ ہے وہ (روداد) جو میرے پاس تیار ہے۔‘‘
جبریل علیہ السلام اور سدرۃ المنتہیٰ
﴿وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ﴿٤﴾ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَىٰ ﴿٥﴾ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَىٰ ﴿٦﴾ وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَىٰ ﴿٧﴾ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ ﴿٨﴾ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ ﴿٩﴾ فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ ﴿١٠﴾ مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَىٰ ﴿١١﴾ أَفَتُمَارُونَهُ عَلَىٰ مَا يَرَىٰ ﴿١٢﴾ وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ ﴿١٣﴾ عِندَ سِدْرَةِ الْمُنتَهَىٰ ﴾ ( النجم 53: 3۔14)
’’اور وہ(اپنی) خواہش سے نہیں بولتا، وہ وحی ہی تو ہے جو(اس کی طرف) بھیجی جاتی ہے، اسے مضبوط قوتوں والے(جبریل) نے سکھایا،جو نہایت طاقتور ہے، سو وہ (اپنی اصلی صورت میں) سیدھا کھڑا ہوگیا،جبکہ وہ (آسمان کے) بلند کنارے پر تھا، پھر وہ قریب ہوا اور اتر آیا، تو وہ دوکمانوں جتنا بلکہ اس سے بھی قریب ہوگیا، پھر اس نے اللہ کے بندے کی طرف وحی کی جو وحی کی، اس (رسول) نے جو کچھ دیکھا، اس کے دل نے(اس کے متعلق) جھوٹ نہیں بولا، کیا پھر تم اس چیز پر اس (نبی) سے جھگڑتے ہو جو وہ دیکھتا ہے، اور البتہ تحقیق اس (رسول) نے اس (جبریل) کو ایک بار اور بھی اترتے دیکھا،سدرۃ المنتہیٰ (آخری حد کی بیری) کے قریب۔‘‘
|