لَا تُؤْتُونَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ وَتَرْغَبُونَ أَن تَنكِحُوهُنَّ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْوِلْدَانِ وَأَن تَقُومُوا لِلْيَتَامَىٰ بِالْقِسْطِ ۚ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِهِ عَلِيمًا﴾ ( النساء 4: 127)
جو یتیم لڑکیوں کے بارے میں تمھیں (پڑھ کر) سنائی جاتی ہیں جنھیں ان کا مقرر حق تم نہیں دیتے اور تم چاہتے ہو کہ ان سے نکاح کرلو اور (وہ) کمزور بچوں کے بارے میں (تمھیں حکم دے رہا ہے) اور یہ کہ تم یتیموں سے انصاف کرو۔ اور تم جو بھی نیکی کرو، تو بے شک اللہ اس کا خوب علم رکھتا ہے۔‘‘
نا اتفاقی ہو جائے تو صلح کر لینا ہی بہتر ہے
﴿ وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِن بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا ۚ وَالصُّلْحُ خَيْرٌ ۗ وَأُحْضِرَتِ الْأَنفُسُ الشُّحَّ ۚ وَإِن تُحْسِنُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا﴾ ( النساء 4: 128)
’’اور اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے ظلم و زیادتی یا نظر انداز کیے جانے کا اندیشہ ہو تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ آپس میں کسی طرح صلح کرلیں، اور صلح ہی اچھی ہے اور انسانی نفس میں بخیلی رکھی گئی ہے اور اگر تم احسان کرو اور پرہیز گار بنو تو بے شک تم جو بھی عمل کرتے ہو، اللہ اس کی خوب خبر رکھتا ہے۔‘‘
ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو کسی بیوی سے بے پروائی نہ کرو
﴿ وَلَن تَسْتَطِيعُوا أَن تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ ۖ فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ ۚ وَإِن تُصْلِحُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴾ ( النساء 4: 129)
’’اور تم سے یہ کبھی نہ ہو سکے گا کہ تم اپنی بیویوں میں ہر طرح سے عدل کرو، خواہ تم اس کی کتنی ہی خواہش رکھو ، پھر تم کسی ایک کی طرف پوری طرح مائل نہ ہو جاؤ کہ دوسری کو بیچ میں لٹکتی چھوڑدو اور اگر تم اصلاح کا رویہ اختیار کرو اور پرہیز گار بنو تو اللہ بہت بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘
|