11
کار ساز اللہ ہے۔ پیشوا، علماء، درویش اور فوت شدہ ہستیاں کوئی اختیار نہیں رکھتیں
آج کل شیطان بڑے تکنیکی طریقے سے بہت سے مسلمانوں سے شرک جیسا عظیم گناہ کرا رہا ہے کیونکہ اس عمل کو وہ شرک کرنے والوں کے سامنے آراستہ کر کے دکھا رہا ہے، چنانچہ وہ یہی سمجھ رہے ہیں کہ وہ بڑا نیکی کا کام کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے گروہ فوت شدہ ہستیوں کو پکارنے اور ان کی قبروں کو پوجنے کے علاوہ بہت سے شرکیہ اعمال میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ اسی طرح آج کل بہت سے لوگ روحانی پیشواؤں، پیروں، عاملوں، علماء اور درویش شخصیتوں کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں اور شرعی مسئلوں میں کسی چیز کے جائز یا ناجائز/ حلال یا حرام ہونے کے بارے میں ان کی رائے کو اس قدر مستند اور معتبر سمجھتے ہیں کہ قرآن و حدیث کے واضح احکام کو بھی پس پشت ڈال دیتے ہیں، یہ عمل سراسر گمراہی ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہمارے لیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات نمونہ قرار دی گئی ہے۔ اس لیے ہر عمل سے پہلے ہمیں غور کرنا چاہیے کہ آیا یہ کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے یا نہیں۔ جو کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا یا کرنے کا حکم دیا، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع نہیں فرمایا، یہ تینوں صورتیں مومن کے لیے قابل اتباع ہیں۔ شریعت کے معاملہ میں ان سے باہر کوئی عمل چاہے وہ کتنا ہی خوشنما ہو دین میں ایجادِ بندہ، یعنی ’’بدعت‘‘ شمار کیا جائے گا۔
|