عورتوں کو گالیاں دینے اور مارنے پیٹنے والے اخلاقی لحاظ سے اچھے انسان نہیں ہیں۔
ہر چند اسلام نے ناگزیر حالات میں عورت کو سرزنش کرنے کی اجازت دی ہے لیکن اس کے لیے قرآن کریم سے ایک حکیمانہ ترتیب یہ معلوم ہوتی ہے کہ پہلے اسے وعظ و نصیحت کریں، اس سے وہ نہ سمجھے تو رات کو اس کے ساتھ یکجائی ترک کر دیں ۔ یہ ایک سمجھ دار عورت کے لیے بڑی مؤثر تنبیہ ہے۔ اس سے بھی نہ سمجھے تو چہرہ اور سر چھوڑ کر اُسے ہلکی سی مناسب سزا دیجیے بشرطیکہ ایسا کرنے سے اس کے سدھرنے کی امید ہو، ورنہ اس سے بھی گریز اور پرہیز ہی بہتر ہے تاہم حسب ضرورت تینوں کام بیک وقت بھی کیے جاسکتے ہیں لیکن وعظ و نصیحت کو بالکل نظر انداز کرکے وحشیانہ طریقے سے پٹائی کرنے کی اسلام نے قطعًا اجازت نہیں دی ۔ یہ چیز حسن معاشرت کے بھی منافی ہے۔ خاوند کی عدم موجودگی میں عورت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی عصمت اور خاوند کے مال کی حفاظت کرے، خاوند کے ناپسندیدہ افراد کو چاہے وہ اس کے قریبی عزیز ہی ہوں، گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دے۔ اُدھر خاوند کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق ازدواجی حقوق کے ساتھ ساتھ عورت کو اچھا لباس، اچھی خوراک اور دیگر ضروریاتِ زندگی فراہم کرے۔
مرد کی حاکمیت و قوامیت کی دو وجوہ بیان کی گئی ہیں، ایک تو یہی ہے کہ مرد قوت اور دماغی صلاحیت کے اعتبار سے عورت سے خلقی طور پر ممتاز ہے، دوسری وجہ کسبی ہے جس کا مکلف شریعت نے مرد کو بنایا ہے اور عورت کو اس کی فطری کمزوری اور عفت و حیا کے تحفظ کے لیے ضروری تعلیمات و ہدایات کے پیشِ نظر معاشی جھمیلوں سے دور رکھا ہے۔ عورت کی سربراہی کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بہت واضح ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ قوم ہرگز فلاح نہیں پا سکے گی جس نے اپنے اُمور عورت کے سپرد کردیے۔‘‘ (صحیح البخاري، حدیث: 4425)
نافرمانی کی صورت میں عورت کو سمجھانے کے لیے سب سے پہلے وعظ و نصیحت کرنی
|