رات اس سے ناراضی کی حالت میں گزارے تو صبح تک فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، حدیث: 3237، و صحیح مسلم، حدیث: 1436)
’’کسی عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ خاوند کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر (نفلی) روزہ رکھے، نہ یہ جائز ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر کسی کو اس کے گھر میں آنے دے۔‘‘ (صحیح البخاري، حدیث: 5195)
جس طرح شریعت اسلامیہ نے مرد کو عورت کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی ہے، اسی طرح عورت کو بھی ایسا رویہ اختیار کرنے سے روکا ہے جس سے خاوند کو تکلیف ہو۔ یہ ایذا رسانی بدزبانی سے بھی ہو سکتی ہے اور بداخلاقی و بداطواری سے بھی اور شوہر کی آمدنی سے بڑھ کر ناجائز مطالبات کی صورت میں بھی، جیسا کہ عام طور پر عورتیں یہی تینوں طریقے بروئے کار لا کر اپنے خاوندوں کو زچ کرتی اور ان کی پریشانی کا باعث بنتی ہیں۔ نافرمان عورت کو راہ راست پر لانے کے لیے علیحدگی (ترک تعلق) کی ضرورت پیش آئے تو گھر کے اندر یہ ترکِ تعلق اس طرح کیا جائے کہ رات کو اس کے ساتھ سونا چھوڑ دیا جائے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ علیحدگی صرف بستر کی جُدائی کی حد تک ہی ہو، بات چیت ترک نہ کی جائے۔ لیکن بیوی پر پھٹکار بھیجنا، ہر روز مارنا، ماں بہن کہنا یا طلاق ایسے الفاظ استعمال کرتے رہنا، گھر سے نکالنا یا نکالنے کی دھمکی دینا ،خوراک یا لباس مہیا نہ کرنا یا غیر مہذب حربے اختیار کرنا، ناشائستہ سزائیں دینا ،چہرے پر تھپڑ مارنا اور آئے دن مغلظات بکنا یہ سب کچھ قطعاً ناجائز اورممنوع ہے۔ بیوی کو بار بار طعنے اور کچوکے دینا اور اولاد یا اپنے رشتہ داروں کے سامنے ذلیل کرنا نہایت بُری بات ہے، یہ سب غلط اور گھٹیا طریقے ہیں جو کسی انسان کو کسی صورت زیب نہیں دیتے۔ خواتین کی تکریم و تعظیم بہت ضروری ہے۔ خاص طور پر بیوی تو گھر کی ملکہ ہوتی ہے، اسے عزت اور وقار سے رکھنا چاہیے۔ اگر بیوی حد سے گزرتی نظر آئے تو پھر جو طریقے قرآن و حدیث میں آئے ہیں انھی پر اکتفا کرنا چاہیے۔ اِن سے تجاوز دین اور دنیا دونوں کی تباہی کا باعث ہے۔
|