پیالے یہ کہہ کر بیچتے نظر آتے ہیں کہ یہ خاکِ شفا سے بنے ہوئے ہیں اور اس میں سے پینے والوں کو بیماریوں سے شفا مل جاتی ہے، حالانکہ ’’خاکِ شفا‘‘ اور اس سے منسوب کہانیاں سب من گھڑت ہیں اور یہ شرک پر مبنی عقیدہ ہے کیونکہ شفا دینے والی ذات تو صرف ایک اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ہے۔ اسی طرح کئی لوگ مزاروں سے نمک یا بیری کے پتے کھاتے ہیں یا مزار کے سامنے کسی نلکے، جوہڑ یا چشمے میں نہاتے ہیں، اس نیت سے کہ یہاں سے شفا مل جائے گی، یہ سب شرک ہی شرک ہے۔
٭ تمیمہ(تعویذ) اور ودعہ (سیپ) کی احادیث میں سخت مذمت وارد ہوئی ہے۔ چنانچہ کوئی چیز وہ لوہے کی ہو یا پیتل کی، سیپ ہو یا منکا یا دھاگا، اسے گلے میں ڈالنا، کلائی یا بازو، انگلی یا پاؤں پر باندھنا، اس نیت سے کہ اس کی وجہ سے آرام آجائے گا سخت ممنوع ہے۔ ہمارے ہاں بھی بعض بیماریوں کی صورت میں لوگ ان کا صحیح علاج کرنے کی بجائے دھاگے پر گانٹھ لگا کر باندھ لیتے ہیں یا چھوٹی چھوٹی لکڑیوں کا ہار سا بنا کر گلے میں ڈال لیتے ہیں۔ بعض صورتوں میں ناک یا کان میں سوراخ کرکے کوئی چیز ڈال لیتے ہیں۔ بس، ٹرک، کار اور مکان وغیرہ پر سیاہ کپڑا لٹکا دیتے ہیں یا پرانا جوتا لٹکا دیتے ہیں یا سیاہ ہنڈیا الٹا کر رکھ دیتے ہیں۔ بعض عورتیں ہار سنگھار کے بعد ماتھے پر ایک کالا نقطہ یا ٹھوڑی پر تین کالے نقطے اس نیت سے لگاتی ہیں کہ اس طرح نظر بد سے محفوظ رہیں گی۔ کئی لوگ دھات کا بنا ہوا پنجہ (جسے وہ اپنے زعم باطل میں پنج تن پاک کا پنجہ کہتے ہیں) یا گھوڑے کا سُم گھر یا گاڑی پر لگا دیتے ہیں۔ اسی طرح رفعِ بلاء اور دفعِ مصائب کے لیے کئی لوگ پانچ روپے کے سکے کو کسی کپڑے میں لپیٹ کر بازو پر امام ضامن کے طور پر باندھتے ہیں۔ دورِ جاہلیت میں کمان کی پُرانی تانت کو چوپایوں کے گلے میں ڈال دیتے تھے تاکہ جانور نظرِ بد سے محفوظ رہیں (صحیح البخاري، حدیث: 3005 وصحیح مسلم، حدیث: 2115 میں حضرت ابوبشیر انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ حدیث شریف میں اس چیز کی بھی ممانعت آئی ہے۔) تاہم نظربد اور زہریلے جانوروں کے کاٹے کا غیر شرکیہ دم ممنوع نہیں۔ جبکہ قرآنی آیات کے تمیمہ (تعویذ) کے بارے میں اہل علم کے مابین
|